ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی درحقیقت کون ہیں؟

موجودہ سیاسی ڈرامائی صورتحال کے باعث عارف نقوی کے عالمی سطح پر عروج وزوال کے کئی پہلوؤں کے بارے میں دنیا لاعلم ہے۔ فوٹو فائل
موجودہ سیاسی ڈرامائی صورتحال کے باعث عارف نقوی کے عالمی سطح پر عروج وزوال کے کئی پہلوؤں کے بارے میں دنیا لاعلم ہے۔ فوٹو فائل

لندن: فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کا نام اس وقت زیرگردش ہے، مضمون کے مطابق عارف نقوی نے آکسفورڈ شائر میں ایک نجی کرکٹ ایونٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کیلئے فنڈز جمع کئے اور ان کے لئے خلیجی ملک کی ایک شخصیت سے بھی فنڈز حاصل کیے۔

اس مضمون میں سابق وزیراعظم عمران خان پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے جنہوں نے پہلی بار عارف نقوی کی آف شور کمپنی ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے عطیات لینے کا اعتراف کیا ہے۔

اگر چہ عمران خان نے عارف نقوی کا دفاع کیا ہے تاہم پی ٹی آئی کو ان کی جانب سے عطیات کی خبریں زیر گردش ہیں اور ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا یہاں تک کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کا ممکنہ فیصلہ سنادے۔

موجودہ سیاسی ڈرامائی صورتحال کے باعث عارف نقوی کے عالمی سطح پر عروج وزوال کے کئی پہلوؤں کے بارے میں دنیا لاعلم ہے۔ 

نقوی کراچی میں پیدا ہوئے اور یہیں زیر تعلیم رہے جس کے بعد وہ 14 ارب ڈالر کی مالیت کے ابراج گروپ کا قیام عمل میں لائے، وہ فنانشل ٹائمز کے آرٹیکل سے قبل بھی لندن میں امریکی حکومت کی درخواست پر اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ہاتھوں اپریل 2019 میں گرفتاری کے وقت بھی منفی خبروں کا مرکز رہے ہیں۔

عارف نقوی ارب پتی اور عالمی سطح پر پاکستانی تجارت کا چہرہ سمجھے جانے والی شخصیت کے بعد اب معاشی طر پر دوستوں پر انحصار کر رہے ہیں تاہم اس بارے میں زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہے، ایک ایسی صورتحال میں کہ جب وہ امریکا کی جانب سے ملک بدر کیے جانے کے کیس کے خلاف برطانوی عدالتوں میں کیس لڑ رہے ہیں جبکہ اسی دوران وہ عالمی سطح پر میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔

ان کے دوستوں کے ایک گروپ کی جانب سے ان کی ضمانت کے لیے 15 ملین پاؤنڈ کی ادائیگی کے بعد وہ گزشتہ 4 برس سے لندن میں اپنے گھر میں نظر بند ہیں جبکہ ان کی ضمانت بھی انتہائی سخت شرائط پر دی گئی۔

اسی دوران وہ لندن میں ملک بدری کے عمل کے خلاف بھی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ اس صورتحال میں ان کی ذہنی اور جسمانی صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔ اگر چہ ان کی ملک بدری کا عمل جاری ہے تاہم وہ امریکا کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کا جواب نہیں دے سکتے تاہم وہ اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اگر امریکا میں جاری مقدمے میں عارف نقوی مجرم ثابت ہوتے ہیں تو انہیں 300 سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے خلاف امریکی وفاقی عدالتوں میں عائد ہونے والی 97 فیصد مقدمات میں ان پر عائد فرد جرم میں مقدمات نہیں چلے کیوں کہ وہ ان میں پلی بارگین کر چکے ہیں اور موجودہ کیس میں انہیں عمر قید جتنی سزا ہو سکتی ہے۔

عارف نقوی نے 2002 میں ابراج ایکویٹی فرم قائم کی۔ عارف نقوی کی کمپنی قیام کے پندرہ برسوں کے اندر دنیا کی سب بڑی ایکو یٹی فرم بن چکی تھی اور دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے ان کی کمپنی میں سرمایہ کاری کی۔ ان کی مینجمنٹ کے زیر اہتمام اثاثوں کی مالیت 14 ارب امریکی ڈالر تھی جبکہ بوگوٹا سے لیکر استنبول، نیروبی اور جکارتہ تک اس کے 25 دفاتر میں 400 کے قریب ملازمین کام کرتے تھے جبکہ کمپنی کا ہیڈکوارٹرز دبئی میں تھا۔

عارف نقوی مغرب میں نجی ایکویٹی فنانس کی دنیا میں قدم رکھنے والی پہلے پاکستانی بنے اور کئی برس تک مغربی کمپنیوں میں ان کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عارف نقوی دنیائے کاروبار کے ان حصوں (ایکویٹی فنانس) کو ابھرتی ہوئی معیشتوں کے بجائے ترقی پذیر معیشت کہلانے والی پہلی شخصیت تھی۔

بتایا گیا ہے کہ جب امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے فروری 2018 میں ابراج گروپ کے حوالے سے اپنی رپورٹنگ شروع کی تو وہ کے الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک کو 1.77 ارب ڈالر میں فروخت میں ناکامی کی وجوہات کے قریب پہنچ گئے تھے۔

کے الیکٹرک مشرق وسطیٰ کے سرمایہ کاروں کے کنسورشیم کا اہم اثاثہ تھا جس کی سربراہی ابراج گروپ کر رہا تھا جس نے 2005 سے لیکر 2012 تک ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

ٹیک اوور کے وقت کمپنی کو کئی برس تک منافع نہیں ہوا اور اسے کرپشن سمیت کئی مسائل کا سامنا رہا تاہم اس کے بعد کمپنی نے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی کامیابی کی مثال قائم کردی اور نامور تعلیمی اداروں میں اس پر اسٹڈیز بھی کروائی گئیں۔ درحقیقت کے الیکٹرک دنیا کی پہلی کامیاب اور پاکستان کی واحد کمپنی بنی جس نے کمپنی کے استحکام سے متعلق رپورٹ میں اے پلس گریڈ حاصل کیا۔

ابراج گروپ کا زوال اس وقت شروع ہوا جب کمپنی کے اہم سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ اچانک سے فرم سے نکال لیا جبکہ ریگولیٹری مسائل، غیر مستحکم سیاسی صورتحال نے بھی کردار ادا کیا حالانکہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کی جانب سے ابراج گروپ کی بیلنس شیٹ میں آنے والے خلا کو پر کرنے کے لیے تعاون بھی کیا تھا۔

کمپنی کے حصص میں ڈرامائی تنزلی کے بعد سے ابراج گروپ کا نام 2018 سے خبروں میں رہا جبکہ اس کا ذمہ دار عارف نقوی کو ٹہرایا جاتا رہا جبکہ ان کے وکلا نے اس معاملے کو میڈیا ٹرائل سے تشبیہ دی۔

انہوں نے اس نکتے کو اٹھایا کہ اگر چہ کمپنی سے متعلق 2002 اور 2017 کے درمیان 15 ہزار مثبت نوعیت کے مضامین عالمی میڈیا میں شائع ہوئے تاہم کمپنی سے متعلق بیانیہ مخالف ہی رہا۔ 

عارف نقوی کراچی میں 1960 میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کبھی بھی مغربی شہریت کے لیے اپنی پاکستانی شناخت تبدیل نہیں کی۔ ان کے محب وطن ہونے کا اندازہ لندن میں ان کی رہائشگاہ میں موجود ایک تصویر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ 1970 میں دس برس کی عمر میں طارق روڈ پر بوٹ پالش کر رہے ہیں اور وہاں ایک بینر پر ’’ڈیفنس آف پاکستان فنڈ‘‘ لکھا ہوا ہے، اس تصویر میں وہ اسکول یونیفارم پہنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے گریجویشن مکمل کی۔ برطانیہ اور سعودی عرب میں وقت گزارنے کے بعد انہوں نے 50 ہزاد ڈالر کی جمع کردہ رقم سے ایک بین الاقوامی انویسمنٹ بزنس قائم کیا جسے دبئی میں کوپولا کا نام دیا گیا جس نے خود اور اس کے سرمایہ کاروں نے 2001 تک مشرق وسطیٰ میں خوب نام اور لاکھوں ڈالر کا نفع کمایا۔

کوپولا کے بعد عارف نقوی نے ابراج کے نام سے ایک ایکویٹی فرم قائم کی جو ابھرتی ہوئی عالمی مارکیٹ میں اپنی نوعیت کی پہلی کمپنی تھی اور اس نے بھی خوب شہرت حاصل کی۔

عالمی سطح پر نام کمانے کے باجود نقوی کبھی بھی پاکستان کی مدد اور بیرون ملک اس کا تشخص برقرار  رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 2005 میں زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے ان کی جدوجہد پر اس وقت کے صدر مشرف نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ 

انہوں نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی جس میں سیلابوں اور ہنگامی صورتحال میں ریسکیو آپریشنز کے لیے بیرون ملک سے مشینری کی فراہمی بھی شامل رہی۔ وہ شوکت خانم اسپتال، سٹیزن فاؤنڈیشن، میری اسٹوپز، ایل آر بی ٹی اور آئی کیئر سمیت کئی خیراتی اداروں کے بڑے ڈونرز میں شامل رہے جبکہ کئی نامود تعلیمی اداروں کے کیمپسز کے قیام کے لیے بھی انہوں نے فنڈز مہیا کیے۔

دو مواقعوں پر جب پاکستانی بحریہ کے اہلکار صومالی قزاقوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے تھے یہ عارف نقوی ہی تھے جنہوں نے ان کی رہائیوں کے لیے اپنا پیسہ اور عالمی سفارتی تعلقات استعمال کیے۔

ملالہ یوسفزئی اور دو مزید لڑکیاں جو ٹی ٹی پی کے حملے میں زخمی ہوگئی تھیں کو برطانیہ منتقل کرنے اور گریجویشن تک ان کی تعلیم کا خرچہ بھی عارف نقوی نے ہی اٹھایا۔

امن فاؤنڈیشن کا قیام بھی عارف نقوی ہی کی مرہون منت ہوا جنہوں نے 2008 سے لیکر 2018 تک 35 ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کی جو کراچی میں ایک غیر منافع بخش ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔

2022 میں عارف نقوی کی خرابی قسمت کے بعد فاؤنڈیشن کو بند کرنا پڑا تاہم اب سندھ حکومت نے اس کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے 2009 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد مستقبالی فاؤنڈیشن قائم کی جس نے 1900 یتیم بچوں کی دیکھ بھال سنھالی۔

انہوں نے دبئی میں مقصود نقوی کمیونٹی مسجد کے قیام کے لیے بھی لاکھوں ڈالرز خرچ کیے۔ اسی طرح برطانیہ میں ہیرو مسجد اور مسعود کمیونٹی سینٹر کے قیام کے لیے بھی انہوں نے لاکھوں ڈالرز خرچ کیے۔ ان کی خدمات پر انہیں کئی عالمی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے جن میں اوسلو بزنس فار پیس ایوارڈ بھی شامل ہے۔

نوٹ: یہ خبر یکم اگست 2022 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔

مزید خبریں :