01 اگست ، 2022
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت الیکشن کمیشن میں ہنگامی اجلاس ہوا۔
ذرائع کے مطابق لاء ونگ حکام نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ممنوعہ فنڈنگ کیس کے متعلق تیاری پر حتمی بریفنگ دی۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ چیف الیکشن کمشنر نے متعلقہ حکام کو کیس کے متعلق تمام تیاریاں مکمل کرنےکی ہدایت کی اور کیس کے فیصلے کے موقع پر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کی ہدایت کی۔
ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے ہدایت کی کہ ضرورت پڑنے پر رینجرز اہلکار الیکشن کمیشن پر تعینات کیے جائیں۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ ممنوعہ فارن فنڈنگ فیصلے کے موقع پر اسلام آباد کی سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جائیں گے، پولیس اور ایف سی کے ایک ہزار جوان ڈیوٹی پر مامور ہوں گے، غیر متعلقہ افراد کو الیکشن کمیشن میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، میڈیا سمیت ریڈ زون دفاتر جانے والوں کو شناخت کے بعد جانےکی اجازت ہوگی جب کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائےگا۔
پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہوگی؟ کیا عمران خان پر غلط بیانِ حلفی دینے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہو گا؟ کیا فوجداری مقدمات قائم کیے جائیں یا پھر پارٹی کو کلین چٹ ملے گی؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان کل صبح دس بجے فیصلہ سنائےگا۔
الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کیلئے کازلسٹ جاری کردی ہے۔ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون کو محفوظ کیا گیا تھا۔
کاز لسٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر دو ارکان فیصلہ سنائیں گے۔
14 نومبر 2014 کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں تاہم 21 جون 2022 کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔
الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گیے۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔
اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔
پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔
یہ اکاؤنٹس اسد قیصر ، شاہ فرمان ، عمران اسماعیل ، محمود الرشید ، احد رشید ، ثمر علی خان ، سیما ضیاء ، نجیب ہارون ، جہانگیر رحمان ، خالد مسعود ، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے۔