02 اگست ، 2022
الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی۔
الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آج صبح 10 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا تاہم کچھ دیر کی تاخیر کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تین رکنی بینچ کا متفقہ فیصلہ سنایا۔
سیا سی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 کے مطابق غیر ملکی فنڈنگ ممنوع ہے: ای سی پی کا فیصلہ
عمران خان کا پارٹی اکاؤنٹس سے متعلق دیا گیا بیان حلفی جھوٹا ہے: الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ ان کے ممنوعہ فنڈز ضبط کیے جائیں، الیکشن کمیشن دفتر قانون کے مطابق باقی کارروائی بھی شروع کرے، فیصلہ کی کاپی وفاقی حکومت کو جاری کی جاتی ہے۔
کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے الیکشن کمیشن کو جانے والے راستے بند کر دیے گئے تھے اور الیکشن کمیشن کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔
شاہراہ دستور پر داخلے کے لیے صرف سرینا ہوٹل اور مارگلہ روڈ کا راستہ کھلا رکھا گیا تھا جبکہ نادرا چوک، الیکشن کمیشن کے پاس سڑک کو کنٹینر لگا کر بند کر دی گئی تھی۔
14 نومبر 2014 کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے 30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے 6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں تاہم 21 جون 2022 کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے 21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے 9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف 4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔
الیکشن کمیشن نے اگست 2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں، اسکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی، اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل 8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گیے۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔
اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہ دیا گیا، پی ٹی آئی کی جانب سے غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔
پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔
یہ اکاؤنٹس اسد قیصر ، شاہ فرمان ، عمران اسماعیل ، محمود الرشید ، احد رشید ، ثمر علی خان ، سیما ضیاء ، نجیب ہارون ، جہانگیر رحمان ، خالد مسعود ، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے۔