احتساب سے بالاتر ہماری عدلیہ

ہماری عدلیہ کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں؟ دنیا میں آخر اس کو 130ویں نمبر پر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ کسی بھی پاکستانی سے بات کریں تو وہ اپنی عدالتوں اور نظامِ انصاف سے مطمئن دکھائی نہیں دیتا ؟ حال میں ہی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے بارے میں جوڈیشل کمیشن میں جو تنازعہ پیدا ہوا اور کس طرح ججوں اور کمیشن کے ارکان نے ہی چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے چنے گئے ناموں کو رَد کر دیا ،وہ سب کے سامنے ہے۔

تاہم میں یہاں آپ سے دی نیوز کے سینئر صحافی مہتاب حیدر کی ایک خبر شیئر کرنا چاہتا ہوں، اُسے پڑھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ ہمارے جج اور عدالتیں ابھی تک وہ کچھ کرنے اور وہ حقائق ماننے پر تیار نہیں جسے دنیا نے اپنا لیا اور انصاف کا بہترین معیار قائم کیا۔ گزشتہ روز مہتاب حیدر کی روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر کی سرخی کچھ یوں تھی، ’’دیامر بھاشا ومہمند ڈیمز فنڈ، سپریم کورٹ کا آڈٹ کی اجازت دینے سے انکار‘‘۔

خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو سپریم کورٹ آف پاکستان، وزیراعظم، دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈ کی مد میں پڑے اربوں روپے کے فنڈز کا آڈٹ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور ان کے ماتحت افسروں نے ڈیمز فنڈ کے آڈٹ کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا تھا لیکن اب تک ملک کی اعلیٰ ترین عدالت یہ بتا کر اجازت دینے کو تیار نہیں کہ معاملہ زیرِسماعت ہے اور دوسرا انہیں عمل درآمد بینچ سے منظوری ملنے کے بعد اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان سے ڈیٹا حاصل کرنا ہوگا۔ 

دستیاب سرکاری دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 20 جولائی 2022کو ہونے والی میٹنگ کے دوران چیئرمین پی اے سی کی ہدایت پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان، پی ایم، دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ سے متعلق فنڈز کا آڈٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سرکاری مکتوب میں متعلقہ حکام کو 10 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل نے اب باضابطہ طور پر یہ کہا ہے کہ افسر کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسٹر عبدالرزاق ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) نے معائنہ افسر کو مطلع کیا کہ یہ کیس آئین کے تحت سی ایم اے نمبر 6155 آف 2018 کے تحت زیر سماعت ہے۔دوسرا انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے عمل درآمد بینچ سے منظوری ملنے کے بعد اسٹیٹ بینک اور این بی پی سے ڈیٹا حاصل کرناہوگا۔

اس خبر نے یہ سوال پیدا کیا کہ دوسروں کے احتساب اور اُن کی سزا و جزا کے فیصلےکرنے والی عدلیہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔ عدالتوں کو بھی خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہئے اور فنڈز کےآڈٹ کا یہ معاملہ تو بہت ہی معمولی سا مسئلہ ہے اور اس پر تو کسی بھی لحاظ سے ٹال مٹول درست نہیں۔ 

میری ذاتی رائے میں تو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں اور اُن کے ججوں کے تمام اخراجات کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے۔ اس بارے میں حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے اپنے دور کے تمام اخراجات کا فارنزک آڈٹ کروانے کا حکم دیا ہے، جو ایک خوش آئند اقدام ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے قابلِ تقلید بھی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے تو گزشتہ سال کے کل بجٹ کا تقریباً تیس فیصد بچاکر حکومت کے خزانے میں واپس جمع کروا دیا ہے جب کہ اعلیٰ عدلیہ کی کچھ دوسری عدالتوں میں کورٹ ملازمین کو اعزازیہ دے دیا گیا اور یہ سب ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کے معاشی حالات بہت ہی خراب تھے۔ یاد رہے کہ عدلیہ کے ججوں اور ملازمین کی تنخواہیں پہلے ہی عام سرکاری افسروں سے بہت زیادہ ہیں۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس صاحب اس لیے بھی قابلِ تقلید ہیں کہ اُنہوں نے ججوں کے لیے سرکاری خرچ پر چائے اور ریفریشمنٹ پر پابندی عائد کردی۔ اسی عدالت کے تمام موجودہ ججوں نے حکومت سے اسلام آباد میں سرکاری پلاٹ لینے کی بھی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا جبکہ یہاں اعلیٰ عدالتوں کے جج ایسے کیس بھی سنتے رہے جن میں وہ خود بھی پلاٹوں کے حصول کیلئے درخوست گزار تھے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام پر ہر کسی کو اعتراض ہے لیکن اس باب میں بھی کوئی بہتری نہیں لائی جا رہی۔ پاکستانی عدلیہ خود کو بدلے اور اپنے بارے میں کسی خوش فہمی سے باہر نکلے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔