04 اگست ، 2022
ممنوعہ فنڈ نگ کیس کا فیصلہ بالآخر آہی گیا، 70صفحاتی فیصلے میں تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈز لئے، عمران خان کا جمع کرایا گیا فارم ون غلط، کپتان کا پارٹی اکاؤنٹس سرٹیفکیٹ جھوٹا ، فیصلے میں یہ بھی کہ تحریک انصاف نے 34غیر ملکی شہریوں اور 351غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز لئے، تحریک انصاف نے 8 پارٹی اکاؤنٹس مانے جبکہ 13 پارٹی اکاؤنٹس تسلیم نہیں کئے حالانکہ یہ اکاؤنٹس پارٹی قیادت، مینجمنٹ نے بنائے، اکاؤنٹس چھپانا آئین کی خلاف ورزی، تحریک انصاف کی ایک ارب سے زائد فنڈنگ کی تفصیلات معلوم نہیں،ممنوعہ فنڈنگ آئین کے آرٹیکل 17کے زمرے میں آئے کیوں نہ ممنوعہ فنڈز ضبط کر لئے جائیں، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
اب صورتحال یہ، ایک طرف فیصلے کی روشنی میں تحریک انصاف، عمران خان کیخلاف ریفرنس، ڈکلیریشن کی تیاری ہورہی، مقصد تحریک انصاف پر پابندی لگوانا، عمران خان کو نااہل کروانا جبکہ دوسری طرف الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس کا جواب دینے، فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاری ہورہی ، اب جہاں تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن فیصلے، ریفرنس کو غلط ،جھوٹا ثابت کرنے کیلئے عدالت میں بہت کچھ کرکے دکھانا ہوگا، وہاں پی ڈی ایم حکومت ریفرنس کے ذریعے تحریک انصاف پر تبھی پابندی لگوا سکے گی جب وہ یہ ثابت کردے گی کہ تحریک انصاف غیر ملکی ایجنڈے پرکام کرنے والی غیرملکی فنڈڈ پارٹی، یہ ملکی مفاد کیخلاف کام کررہی، عمران خان کو تبھی نااہل کروا پائے گی جب یہ ثابت ہوگا کہ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ،کچھ چھپایا، ڈکلیئر نہ کیا، جان بوجھ کر بے ایمانی،فراڈ کیا اور اس بے ایمانی ،فراڈ سے عمران خان کو فائدہ ہوا، معاملہ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ جائے گا مطلب عدالتی جنگ، بلاشبہ الیکشن کمیشن کے اس 70 صفحاتی فیصلے میں غلطیاں، بہت سارے اگر، مگر، بہت سارے لطیفے، بلاشبہ یہ طے ہونا باقی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی یا نہیں اور تحریک انصاف اس فیصلے کو Light لے رہی یا پی ڈی ایم حکومت ضرورت سے زیادہ ہی خوشیاں منا رہی، وقت سے پہلے مٹھائیاں بانٹ رہی۔
ویسے کیا ملک کہ باہر سے رقم جمع کرکے لانا جرم اور ایسا کرنے والی جماعت ،لیڈر پر پابندی لگا دو لیکن پاکستان سے رقم چوری کرکے باہر لے جانا کارِخیر اور یہ کارِخیر کرنے والے نیک لوگوں کو انعام کے طور پر حکومت دیدو، ویسے کیا ملک کہ پورے کا پورا فارن فنڈنگ پر چل رہا لیکن پارٹی فارن فنڈنگ جرم، ویسے کیا ملک کہ بقول بلاول بھٹو اسامہ بن لادن سے فنڈنگ لینے، آئی ایس آئی سے فنڈنگ لینے (کیس سپریم کورٹ میں ) اور مبینہ طور پر ذاتی ملازمین کے نام پر پارٹی اکاؤنٹس کھلوا کر پیسے کھا جانے والی مسلم لیگ، لیبیا ودیگر ممالک سے مبینہ پارٹی فنڈنگ لینے کے الزامات والے مولانا صاحب اور عجیب وغریب بلکہ مضحکہ خیز پارٹی فنڈنگ کرنے والی پی پی اور ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف ،عمران خان پر گرج برس رہی، ویسے کیا ملک پی پی، مسلم لیگ کے کیس بھی الیکشن کمیشن میں چل رہے ،5سال ہونے کو آئے،کچھ اتا پتا نہیں۔
کئی بار بات ہوچکی کہ ہمارا قانون، ہمارا عدالتی نظام بلکہ ہمارا ملک طاقتوروں کیلئے جنت ،یہاں حمزہ شہباز کو چھٹی والے دن گھر کی بیسمنٹ میں عدالتی ریلیف مل جائے، یہاں مریم نواز صبح درخواست ضمانت دیں انہیں دوپہر کو ضمانت مل جائے، یہاں شہباز شریف ضمانت کے مچلکے جمع نہ کروا کر بھی ضمانت میں توسیع لے لیں، یہاں نواز شریف مجرم ہو کرایک بار جیل سے 8ہفتے کی طبی چھٹی رائے ونڈ محل میں گزاریں جبکہ دوسری بار بھائی شہباز شریف کی ضمانت پر 50روپے کے اسٹامپ پیپر پر جیل سے سیدھے لندن سدھارجائیں،یہاں طاقتوروں کیلئے گھروں جیسی جیلیں بلکہ طاقتوروں کی جیلیں غریبوں کے گھروں سے زیادہ سہولتوں والی، یہاں طاقتوروں، مجرموں ،ملزموں کیلئے بھانت بھانت کی سہولتیں ، قدم قدم پر ریلیف، باقی چھوڑیں اسی کیس کولے لیں ،یہ کیس تھا زیادہ سے زیادہ سال کا،چلا 7سال 9ماہ۔
سماعتیں ہوئیں صرف 180،ہمارا کیس خفیہ رکھا جائے، تحریک انصاف نے 12درخواستیں تو یہ دیں ،9بار وکیل بدلے، 30بار کیس مؤخر کرایا مطلب التوا لیا، 6بار کیس کے ناقابلِ سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا، اور تو اور کیس کرنے والے اکبر ایس بابر کی کمیٹی میں موجودگی کیخلاف 4درخواستیں دائر کیں ، تحریک انصاف کی ٹال مٹول ایسی کہ الیکشن کمیشن کو 21بار اور اسکروٹنی کمیٹی کو20بار ان سے ریکارڈ مانگنا پڑا،مطلب کبھی وکیل بدل کر کیس لٹکانا تو کبھی آپ ہمارا کیس سن ہی نہیں سکتے جیسی درخواستیں دے کر کیس الجھانا، کبھی فلاں کو کمیٹی سے نکالو تب ہم پیش ہوں گے تو کبھی مہینوں ریکارڈ نہ دینا ،کبھی الیکشن کمیشن کیخلاف ہائی کورٹ تو کبھی ہائی کورٹ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ، کبھی تاریخ پہ تاریخ، کبھی ان اکاؤنٹس کو سرے سے ہی ماننے سے انکار کر دینا، کبھی الیکشن کمیشن کیخلاف تو کبھی چیف الیکشن کمشنر کیخلاف اور یوں زیادہ سے زیادہ ایک سال میں ختم ہونے والا کیس پونے آٹھ سال بعد بھی ختم نہیں ہوا۔
کیوں کیسا، ہے نا طاقتوروں کیلئے یہ ملک جنت، ایسا ملک کہاں ملے گا کہ 8ہفتے کیلئے خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کیلئے لند ن گئے مجرم، اشتہاری نواز شریف ایک دن بھی باقاعدہ علاج نہ کروانے، وہاں طرح طرح کی ہوا خوریوں اور سیاستوں کے بعد پونے 3سال بعد واپسی کی بات کریں تو اسے ملک وقوم اور جمہوریت پر احسان سمجھا جائے، ایسا ملک کہاں ملے گا کہ جہاں وہ شہباز شریف ،حمزہ شہباز جن پر جس ہفتے فرد جرم عائد ہونا تھی وہ اسی ہفتے وزیراعظم، وزیراعلیٰ بن جائیں اور ایسا ملک کہاں ملے گا جہاں نیب کے ملزم نیب کا قانون بنائیں، جہاں زرداری صاحب اپنے کیس اپنی مرضی کے شہر شفٹ کرالیں۔
جہاں اپوزیشن دور میں نواز شریف، شہباز شریف ،زرداری صاحب سمیت سب بیمار ،چلنے پھرنے سے قاصر مگر جونہی اقتدار ملے، سب تندرست اور تو انا، باقی چھوڑیں اڑھائی تین ماہ وزارت اعلیٰ کو طوفانی انداز میں بھگتانے والے حمزہ شہباز اقتدار سے نکلے، تین چار دن بعد عدالت نے بلایا تو جواب دیا، کمر میں درد، چل پھر نہیں سکتا، پیشی پر کیسے آؤں، لیکن انہیں آج وزارت اعلیٰ دیدو، پھر سے تندرستی، جوانی، پھرتی سب کچھ لوٹ آئے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔