Time 07 اگست ، 2022
بلاگ

تحریک انصاف پچھلے قدموں پر

گزشتہ ہفتے میں تحریکِ انصاف کا اخلاقی دیوالیہ پٹ گیا ہے اور عمران خان پہلی بار بیک فٹ پہ جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا آیا، صداقت،ا مانت اور شرافت کے تمام دبیز پردے تار تار ہوئے۔

تحقیقات کے نتائج و شواہد سے ثابت ہوا کہ تحریک انصاف جانتے بوجھتے ہوئے ممنوعہ ذرائع سے بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کرتی رہی جن میں 315کمپنیاں اور تین درجن غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ 16اکاؤنٹس کو چھپایا گیا جب کہ ان میں سے 13 اکاؤنٹس بے نامی ہونے کے باوجود آٹھ آفیشل اکاؤنٹس سے جڑے پائے گئے، جن کے دستخط کنندگان میں عمران خان سمیت دیگر لیڈر بھی شامل پائے گئے۔  اوپر سے پارٹی چیئرمین کے چار پانچ سال کے اکاؤنٹس پر عمران خان کے سرٹیفکیٹس کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ 

جہاں تک فارن ایڈ یعنی ”بیرونی امداد“کا تعلق ہے، جس میں صرف بیرونی حکومتیں اور جماعتیں شامل ہیں، کے حوالے سے ابراج گروپ کے ذریعے خلیجی وزیر کے 20 لاکھ ڈالرز کے حوالے سے ایک پیچیدہ ٹرانزیکشن بھی کی گئی ہے جس کی گتھی فنانشل ٹائمز کی اسٹوری میں بدرجہ اتم آشکار کی گئی ہے۔

اب الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے ایک شوکاز نوٹس تحریک انصاف کو دیا ہے کہ کیوں نہ ممنوعہ فنڈز بحق سرکار ضبط کرلئے جائیں۔ ساتھ ہی عمران خان کی نااہلی کے لئے ریفرنسز پہ کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ بس پھر کیا تھا وفاقی حکومت نے آئین کی شق 17(3) کے تحت تحریک انصاف پر پابندی کیلئے ڈکلیئریشن جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ڈکلیئریشن ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سےجاری کیا جاتا ہے یا ”بیرونی امداد“ سے چلنے والی پارٹی کے حوالے سے کیا جاتا ہے جو پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہے؟ 

بادی النظر میں ”فارن ایڈڈ“ پارٹی کے طور پر بندش کے لیے مواد ناکافی لگتا ہے اور اسے سپریم کورٹ میں ثابت کرنا مشکل ہوگا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ فل کورٹ بینچ ہوگا یا چھوٹا ’’ہم خیال‘‘ بینچ؟ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کے حوالے سے پہلے ہی سپریم کورٹ تقسیم ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ حنیف عباسی بمقابلہ عمران خان کے مقدمے کے حوالے سے پہلے ہی میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ایک بینچ بہت سے آئینی سوالات پہ رائے دے چکا ہے اور ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے معاملے کو الیکشن کمیشن کے حوالے کرچکا تھا۔ 

بظاہر زیادہ سے زیادہ تحریک انصاف کے فنڈز ضبط ہوسکتے ہیں اور بے نامی کھاتہ داروں بشمول عمران خان کی نااہلی کا کیس آگے بڑھ سکتا ہے۔ عمران خان پہ صادق و امین نہ رہنے (62(1)-f) کا مقدمہ خان صاحب کے سیاسی کیریئر کے لئے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ جو کانٹے سابق وزیراعظم نواز شریف کے لئے بوئے گئے تھے اور انہیں تاحیات نااہل قرار دے کر پارٹی صدارت سے بھی علیحدہ کردیا گیا تھا، وہ عمران خان کے بھی گلے پڑسکتے ہیں۔ 

پارٹی اکاؤنٹس کے حوالے سے ان کے سرٹیفکیٹس، توشہ خانہ کیس اور کچھ دیگر کیسز کے حوالے سے وہ عمران خان جو تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے پہ ہر حد کراس کرتے رہے، اب خود متعدد مقدمات میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے پہ مجبور ہوں گے۔ وہ اگر نااہل بھی قرار دے دئیے گئے تو انہیں نواز شریف کی طرح پارٹی رہبر کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے سے سوائے جیل کے کوئی نہیں روک سکتا۔ 

جس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم اور پاپولر لیڈر کو پھانسی پہ چڑھایا جاسکتا ہے ، دو بار منتخب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو سرِ راہ قتل کروایا جاسکتا ہے، تین بار منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دیا جاسکتا ہے، وہاں کھلنڈرے کراؤڈ کے چاکلیٹی ہیرو کے ساتھ کیا نہیں کیا جاسکتا؟ لیکن عوامی قائدین اور عوامی جماعتوں کو تکنیکی طریقوں سے سیاسی میدان سے باہر کیا جاسکتا ہے اور نہ کرنا چاہئے۔ جو دو عناصر عمران خان اور تحریک انصاف کی بڑی قوت تھے، لگتا ہے وہی ان کے گلے میں کانٹوں کے ہار بن گئے ہیں۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کو لوگ ووٹ اور نوٹ دیتے تھے۔ عمران خان نے بھی شوکت خانم کے حوالے سے خوب خیراتی فنڈز اکٹھے کئے اور اسی تجربے سے انہوں نے سیاسی فنڈ اکٹھےکئے۔ لگتا ہے کہ خیرات سے حاصل کردہ فنڈز بھی تحریک انصاف کے کھاتے میں استعمال ہوئے اور جس طرح سے سمندر پار پاکستانیوں نے یہ فنڈز اکٹھے کئے وہ ان ممالک کے قوانین سے لگا نہیں کھاتے۔ سب سے خطرناک اور بری مثال ابراج گروپ کی فنڈنگ کی ہے۔ ابراج گروپ کے عارف نقوی ،جو کے الیکٹرک میں بڑے شیئر ہولڈر تھے، نے عمران خان سے بڑے مالی فوائد بھی حاصل کئے اوروہ اب ایک عالمی مالیاتی اسکینڈل میں پھنس گئے ہیں۔

تحریک انصاف کا دوسرا بڑا پلر اس کا سوشل میڈیا اور بے لگام یوتھ اور ٹرولز ہیں جن کی رہنمائی عارف علوی اور اسد عمر کرتے رہے ہیں۔ اپنی عالمی سازش کی کہانی کے غبارے سے ہوا نکلتی دیکھ کر اور خود کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا دیکھ کر تحریک انصاف عمران خان اور ان کے جانثار کئی سرخ لائنیں کراس کرگئے۔ لسبیلہ قومی سانحہ ہو یا کابل میں امریکی ڈرون کے ذریعہ ایمن الظواہری کا قتل، پی ٹی آئی کے آفیشل ٹرولز نے اس پر جس طرح کی گمراہ کن اور بیہودہ مہم چلائی، اس سے لگا کہ جس ففتھ جنریشن وار فیئر کےلئے جو کھیپ تیار کی گئی تھی وہ اب اپنے سرپرستوں کے خلاف پلٹ پڑی ہے۔ افواج پاکستان کی طرف سے اس پر ردِعمل آنا ایک فطری عمل تھا اور صدر عارف کو شہدا کے جنازے میں شرکت سے روک دیا گیا ۔

اب لگتا ہے کہ عمران خان بہت بے چین ہوگئے ہیں اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں جس کے باعث وہ غلطیوں پہ غلطیاں کرتے جارہے ہیں۔ اگلے دنوں میں وہ پھر ایک جلسے میں حکومت کوانتخابات کے اعلان کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دینے والے ہیں۔ جب آئی ایم ایف کا بورڈ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے معاملے پر غور کررہا ہوگا۔ سوال اٹھے گا کہ کیا عمران خان نہیں چاہتے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچے؟ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ وہ 9 خالی ہونے والی نشستوں پر خود اُمیدوار ہوں گے جب کہ وہ اسمبلی میں ہوتے ہوئے بھی اس میں واپس جانے کو تیار نہیں۔ جس طرح کا اخلاقی پردہ گرا ہے، تحریک انصاف کو اس سے سنبھلنے کی ضرورت ہے۔

ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کپتان کو کون سمجھائے کہ وہ اب لاڈلے نہیں رہے اور اگر انہیں 9نشستوں پہ انتخاب لڑنے سے نااہل کردیا گیا تو پھر کیا ہو گا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔