کرنسی کی قدر میں کمی کا معمہ

عالمی عدم توازن، تجارتی اہداف کی نظرثانی، دنیا میں بڑھتے ہوئے قطبی رجحانات، گہری ہونے والی فالٹ لائنز اور یورپ میں ہونے والی جنگ نے تجارتی حرکیات کو درہم برہم کر دیا ہےجس کے باعث اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بعض معاملات میں ہونے والا اضافہ اتنا زیادہ ہے جس کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں قوتِ خرید میں کمی کا رجحان غالب ہے۔

یہ کمی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں زیادہ ہے، خاص طور پر جن کا انحصار بڑی حد تک درآمدات پر ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر کم وبیش ہر مارکیٹ کی کرنسی کی قدر کسی نہ کسی درجے کم ہوئی۔ ڈالر کے مقابلے میں انڈین روپیہ سات فیصد، بنگلہ دیشی ٹکا دس فیصد، ملائیشیا کا رنگٹ چھ فیصد گر گیا۔ تاہم ہمارے معاملے میں کرنسی ایسے گری جیسے بنیادوں کے نیچے سے ریت نکل گئی ہو۔ اس گراوٹ نے ہر کسی کو متحیر کر دیا۔ 2022ء کے پہلے سات ماہ میں روپے کی قدر میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی۔

آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری کے بعد قسط کا اجرا دوسرے قرض دہندگان کو بھی دست ِتعاون بڑھانے کی تحریک دے گا۔ اس قرض کی آمد سے روپے پر دبائو کم ہونے اور سال بھر کے لیے زیر التوا مستقبل میں کی جانے والی ادائیگیوں کے بندوبست کی امید ہے۔ تاہم یہ غیر ملکی کرنسی کی کمی پوری کرنے کیلئے قلیل المدتی حل ہیں۔ ہمیں وقت آنے پر یہ تمام قرض واپس کرنا ہو گا، یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس قرض پر سود بھی ادا کرنا ہے جس کے لیے مزید قرض لینا پڑے گا۔ اس طرح یہ شیطانی چکر جاری رہے گا، ہم صرف کسی معجزے کی ہی امید کر سکتے ہیں جو امریکی ڈالروں کے سیلاب کا منہ کھول دے، ماضی میں لئے گئے قرض ختم ہو جائیں یا اشیائے ضروریہ کی قیمتیں یک لخت بہت زیادہ گر جائیں۔

ممکن ہے کہ پہلے روپے کی قدر میں ہونے والی بلاروک ٹوک گراوٹ تعجب خیز ہو لیکن گزشتہ چند ایک ماہ بلکہ چند ایک ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات نے بہت سوں کے ذہن میں ملک کی معیشت کے بارے میں سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے پیدا ہونے والی صورت حال کو اقتصادی اور سیاسی غیر یقینی پن نے مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس سے مالیاتی مارکیٹوں میں لرزش طاری ہونے لگی ہے۔ انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی مختصر مدت کے لیے ریٹنگ کم کر دی ہے۔ اس کے نتیجے میں طویل المدت ریٹنگ بھی منفی ہو گئی جس انداز اور جس بلا روک ٹوک رفتار سے ایشیا کی کبھی اہم ترین کرنسی گراوٹ کا شکار ہوئی اس نے ایک سوال ضرور اٹھا دیا:کیا کرنسی کی قدر میں کمی ایک کاروبار بن چکا ہے؟

حالیہ برسوں میں اوسط شرح دیکھیں تو جمع ہونے والے کل ٹیکس کا کم و بیش پچاس فیصد درآمدات سے حاصل کیا جاتا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں گرنے والا ہر روپیہ ملکی خزانے کو بارہ ماہ کے لیے پندرہ بلین روپے دیتا ہے۔ جنوری 2022ء سے لیکر تیس جون 2022ء تک روپے کی قدر میں ہونے والی کمی سے ملکی خزانے میں چھ ماہ کیلئے ممکنہ طور پر425بلین روپے جمع ہوئے ہیں۔ یکم جولائی 2022ء سے لیکر 12اگست 2022ء تک کرنسی کی گراوٹ کے نتیجے میں ممکنہ طور پر 160بلین روپے جمع ہوئے۔ اور یہ گراوٹ اگر دسمبر 2022ء کے اختتام تک جاری رہی تو اس کا حجم 850بلین روپوں تک جا پہنچے گا۔ یہ سمجھنے کیلئے بہت زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں کہ یہ سلسلہ بجٹ کے اہداف پورا کرنے میں مدد دے گا۔

 اہداف میں اگرکوئی کمی آتی ہے تو مزید قرض لے کر پہلے ہی ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس عائد کرکے یا کاروباری طبقے پر ایک اور سپر ٹیکس لگا کر پوری کر لی جائے۔ یہ کھیل تو اب طے شدہ دکھائی دیتا ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ اس کھیل میں مرحلہ وار برآمدکنندگان کو بھی فائدہ ہو گا، کچھ درآمد کنندگان اپنی لاگت صارفین پر منتقل کر دیتے ہیں، کچھ اپنے اسٹاک سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو فائدہ نہیں اٹھا پاتے وہ تند و تیز شکایت کرتے ہیں کہ بینک کی تجوریاں بھر گئی ہیں لیکن اصل فائدہ اٹھانے والے کوئی اور ہوتے ہیںوہ جن کے امریکی ڈالر وں میں اثاثے ملک سے باہر ہیں وہ پر آسائش زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن شکایت کرنے والوں کی آواز میں آواز ملانا نہیں بھولتے۔ یہ 210ملین پاکستانی ہیں جنہیں مشکلات کا سامنا ہے اور جو امریکی ڈالروں میں لئے گئے قرضے کی قیمت چکائیں گے، وہ قرض جس کا حجم ہر گزرنے والے سال بڑھتا چلا جائے گا لیکن اس کی پروا کسے ہے؟ افسوس کسی کو نہیں۔

ماضی کی برائیوں کو اجاگر کرتے اور دل خوش کن مستقبل کا وعدہ کرتے ہوئے انتخابات جیتے یا ہارے جاتے ہیں، یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، کیا یہ وقت توقف، غوروفکر اور سمت کو درست کرنے کا نہیں؟ قرضوں کی بیڑیاں پہننے سے مصائب کم نہیں ہوں گے بلکہ ان کی شدت دو چند ہوتی جائے گی۔ ہماری برآمدات درآمدات سے پچاس فیصد کم ہیں جب کہ جی ڈی پی کے تناسب سے برآمدات کی شرح دس فیصد ہے۔ ہمارے مشرقی ہمسائے کا برآمدات اور درآمدات کا تناسب 91فیصد ہے جب کہ بنگلہ دیش میں یہ تناسب 62فیصد ہے۔ صنعتی طاقت چین کا تناسب 121فیصد ہے دو عشروں تک جنگ سے تباہ حال ویت نام 101فیصد کے قابلِ رشک مقام پر کھڑا ہے۔

متذکرہ بالا اعدادوشمار کے حوالے سے دیکھیں تو گزشتہ پانچ برسوں کا مواد یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم درآمدی بل کے لیے 49فیصد رقم برآمدات، 37فیصد محنت کش پاکستانیوں کی بیرونی ممالک سے بھیجی گئی رقوم، چار فیصد سرمایہ کاری اور کم و بیش دس فیصد بیرونی قرضوں سے حاصل کرتے ہیں۔

اگرچہ برآمدات میں اضافہ ہماری کوششوں کا مرکزی ہدف ہونا چاہئے لیکن تجارتی خسارے کو قرض لے کر یا غیر ملکی سرمایہ کاری (جو موجودہ ماحول میں ناممکن دکھائی دیتی ہے) یا اثاثوں کی فروخت سے (اس طرح اونے پونے بیچنے کی وکالت نہیں کی جا سکتی) رقوم حاصل کر کے پورا کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تاوقتیکہ ہم اپنی درآمدات کو محدود کر لیں، ممکن ہے کہ کچھ افراد یہ دلیل دیں کہ اس سے معاشی شرح نمو متاثر ہو گی اور کسی حد تک ایسا ہو گا لیکن پھر یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ہمارے سامنے اور انتخاب کیا ہے؟ کیا مزید قرض لیں اور قرض لیتے چلے جائیں؟

درآمدی بل کا ایک طائرانہ جائزہ بتا دے گا کہ کن اشیا کی خریداری کم کرنے کی ضرورت ہے یقیناً ہم تیل کی کھپت کم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اشیائے تعیش اور ایسی اشیا، جو بہت اہم نہیں، کی خریداری بھی کم کی جاسکتی ہے درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن لانے کیلئے وضع کر دہ پالیسی ہمیں دوستوں اور اتحادیوں کی طرف کشکول بڑھانے سے بچاسکتی ہے، اسی طرح سرمایہ کار کو اعتماد دیا جائے تاکہ غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کے لیے فضا سازگار ہو سکے اس سے معیشت پائیدار بنیادوں پر استوار ہو سکے گی۔

ایک ایسی دنیا جس میں قیاس آرائیاں ایک معمول کی بات ہیں اور غلط معلومات ایک کا فروغ ایک کاروبار بن چکا ہے، روپے کی قدر میں کمی کا آسانی سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس سلسلے کو رقم کی حرکیات سے سمجھتے ہوئے غیر جذباتی، بے غرض اور مشکل فیصلے کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ سرمائے کی تشکیل جرم نہیں لیکن پالیسی فریم ورک کو اس کی بنیاد پر رکھنا اور 210ملین پاکستانیوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنے سے بچانے کے لئے کچھ نہ کرنا یقیناً جرم ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔