27 اگست ، 2022
ایک خوش نصیب شاعر نے لکھا، ’اے دوست میں نے تجھ بن لگاتار دو سردیاں دیکھ لیں‘۔ گویا کل ملا کے دو برس۔ ہمارا امتحان طویل ہو گیا۔ کم عمری کے بعد سے غبار ملال کی دریدہ چادر اوڑھے فصل آئندہ کے لاحاصل تعاقب میں نصف صدی گزر گئی۔ دو صدیوں کے سنگم پر غیر مزروعہ زمین کو دو برابر ٹکڑوں میں تقسیم کرتی رائیگانی۔ تاریخ کی گاڑی منزلیں مارتی کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہمیں خبر نہیں ہوئی کہ کب ہمارا ڈبہ گاڑی سے کٹ کے رینگتا ہوا کسی متروک پٹری پر ٹھہر گیا، تاحدِ نظر سیلابی پانی میں ڈوبی بستیوں کے نشان ہیں اور بے سروسامانی کی تیز دھوپ۔
معذرت کہ مجھے موجودہ سیلاب کے ایسے اعداد و شمار بیان نہیں کرنے جو انسانی آلام کے احساس سے خالی ہوں۔ ریاست شہری کو رعایا سمجھتی ہو تو قدرتی آفات نمائشی اقدامات اور غیر ملکی خیرات مانگنے کی رسم بن کر رہ جاتی ہیں۔ میری نسل نے پاکستان میں دسمبر 1974اور اکتوبر 2005ء کے زلزلے دیکھے۔ اب یہ بتانے سے کیا حاصل کہ مشرف حکومت تین روز تک مارگلہ ٹاور پر ٹیلی وژن کیمرے مرکوز رکھ کے کیا چھپانا چاہتی تھی یا یہ کہ کشمیر اور پختون خوا کے زلزلہ زدہ علاقوں میں یتیم ہونے والی بچیوں کو کس نے اغوا کیا؟ جولائی 1977میں سیلاب نے کراچی سمیت ملک بھر میں تباہی مچا رکھی تھی لیکن 5جولائی کو اقتدار غصب کرنے والے ٹولے کو دستور ڈبونے میں دلچسپی تھی۔
سیلاب نے 1973، 2010اور 2020 میں بے پناہ جانی اور مالی تباہی پھیلائی، ہم نے تو نقصان کا درست تخمینہ تک نہیں لگایا، یہ کیوں کر سوچتے کہ دو وقت کی روٹی کو محتاج عوام روزمرہ زندگیاں کیسے بحال کریں گے۔ ریاست نے تو مذہبی اور لسانی دہشت گردی میں ہزاروں اموات کو تزویراتی پالیسی کا ذیلی نتیجہ قرار دے کر فراموش کر دیا، وہ نوشہرہ، راجن پور، ہرنائی اور سانگھڑ کی اس مفلس مخلوق کے بارے میں کیوں سوچتی جنہوں نے اپنے بچوں کو بپھری ہوئی لہروں پر خشک پتوں کی طرح بہتے دیکھا، بوڑھوں کو بے بسی کے عالم میں ڈوبتے دیکھا۔
جن کی جھگیاں اوجھل ہو گئیں۔ جن کے کھیت اجڑ گئے، اسباب غرق ہو گیا۔ حکومتوں کو زیادہ بڑے سوالات کا سامنا ہے؟ منہ زور چوہدریوں کی طرح مخالفین پر ایک کے جواب میں دو مقدمے بنانا ہیں۔ آئی ایم ایف تو ساہوکار ہے، فلاحی ادارہ نہیں۔ اپنا قرض واپس مانگے گا۔ وہ درجنوں غیرملکی امدادی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں کیا ہوئیں جنہیں انسانی حقوق کی آواز اٹھانے کی پاداش میں تڑی پار کیا گیا۔
سول سوسائٹی کا کانٹا کس کے پہلو میں کھٹکتا تھا؟ ہم تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ سوات کی پہاڑیوں میں برساتی مینڈکوں کی طرح نمودار ہونے والے طالبان دو ہفتے میں کدھر غائب ہو گئے؟ بلوچستان میں مفروضہ کنکریٹ ڈیم مٹی کے گڑھے کیوں ثابت ہوئے؟ سیلابی پانی کے قدرتی راستوں پر کس نے آبادیاں تعمیر کیں؟ ہائی ویز اور پلوں کی تعمیراتی منصوبہ بندی کس نے کی؟ دیکھ اے دست عطا تیری غلط بخشی کو / یہ الگ بات کہ ہم چپ ہیں مگر جانتے ہیں۔
قدرتی آفات تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک سالی اور غیر معمولی بارشوں سے واسطہ رہے گا۔ آسمان سے آگ برسی تو فصل مرجھا گئی۔ جو بچ گئی، اسے سیلاب لے جائے گا۔ ندی نالوں کی دھرتی بنگلہ دیش میں 2007کے بعد سے سیلابی نقصان میں کمی کیسے آئی ہے؟ بنگلہ دیش ماڈل کے عشاق وہاں کی سیلابی انتظام کاری پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ممکنہ آفات اور حادثات کا انتظامی بندوبست حکومت کی ذمہ داری ہے۔
حکومت اگر فیصلہ سازی اور وسائل کی تقسیم پر سیاسی اختیار کا نام ہے تو کم از کم 34برس سے اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ اقتدار البتہ موجود ہے۔ اقتدار کے بارے میں خاتون امریکی ماہر قانون Mari Matsuda نے لکھا ہے کہ ’ایک ہوتا ہے ننگا اقتدار، جو چاہے کرے، اسے تردید یا جواز دینے کی ضرورت نہیں۔ اقتدار کی دوسری صورت نے قانونی لبادہ پہن رکھا ہوتا ہے۔
ایسا اقتدار اپنے افعال کی تردید نہیں کرتا البتہ جواز گھڑتا ہے۔ پھر آتا ہے نقاب پوش اقتدار جسے کسی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ایسا اقتدار سرے سے اپنے وجود کا اقرار ہی نہیں کرتا۔‘ یہ فیصلہ آپ کا رہا کہ ہمیں اقتدار کی کس صورت کا سامنا ہے۔ یہ البتہ بتائے دیتا ہوں کہ آنے والا مورخ وہی لکھے گا جو ہم آج کر رہے ہیں اور شاید کہیں یہ بھی لکھے کہ ہم نے آج کے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے حقیقی غلطیوں اور مجرموں کی نشاندہی میں کوتاہی کی تھی۔ عمران خان جھاڑ کا کانٹا بن کر جسد سیاست کو چمٹ گئے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے مجوزہ بندوبست سے معاملات سدھرنے کی بجائے مزید الجھیں گے۔ دراصل یہ بحران ہائبرڈ تجربے کا شاخسانہ ہے۔
حامد میر کی یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ ’بھلے ان پر ابتلا میں کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا ہو، وہ آزادیٔ صحافت پر قدغن کی مخالفت کریں گے۔‘ سردجنگ کے ابتدائی برسوں میں امریکہ پر میکارتھی ازم کا عذاب اترا تھا۔ میکارتھی نام کا ایک کنزرویٹو سینیٹر اس مہم کا سرغنہ تھا۔ امریکہ پر کمیونزم کا خوف بری طرح طاری تھا۔ میکارتھی جسے چاہتا، کمیونسٹ قرار دے کر جینا حرام کر دیتا تھا۔ انتظامیہ، فوج، صحافت، ادب، غرض کوئی اس کی ہرزہ سرائی سے محفوظ نہیں تھا۔ آئزن ہاور حکومت بوجوہ بے بس تھی۔ تاہم ایڈورڈ مرو (Edward Murrow) نام کے ایک صحافی نے اپنے ٹیلی ویژن پروگرام میں میکارتھی سے ایسی ٹکر لی کہ دسمبر 1954ء میں امریکی سینیٹ نے میکارتھی کے خلاف قرارداد مذمت منظور کر لی۔ ایڈورڈ مرو کے کچھ جملے ملاحظہ کریں :
We must not confuse dissent with disloyalty. We must remember that accusation is not proof. We will not walk in fear, one of another. جارج کلونی نے 2005 ء میں ایڈورڈ مرو پر Goodnight and Good Luck کے عنوان سے ایک خوبصورت فلم بنائی تھی۔ وقت ملے تو دیکھئے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔