28 اگست ، 2022
ملک بھر میں قیامت خیز بارشوں نے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں تباہی کے نئے رکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کئی علاقے ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں، کروڑوں افراد اپنے گھروں، مال مویشی، اناج اور جمع پونجی سے محروم ہوگئے ہیں۔
موجودہ بارشوں نے پچھلے تمام رکارڈ توڑ دیے ہیں۔ لوگ محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ میڈیا اورسوشل میڈیا پر تباہی کے جو مناظر دکھائے جا رہے ہیں وہ ایک ذی شعور کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہیں۔
رکارڈ بارشوں نے ملک کے کئی خاندانوں کو غم اور نہ بھول پانے والی یادوں سے دوچار کردیا ہے۔ سیلاب ریل اور روڈ نیٹ ورک سمیت انفرا اسٹرکچر کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے، زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، کھڑی فصلیں پانی کی نذر ہوگئی ہیں۔ نقصانات کے اندازے اور تخمینے لگائے جا رہے ہیں اور ان نقصانات کا اندازہ اس وقت ہوگا جب یہ پانی میدانی علاقوں اور شہروں سے نکالا جائے گا۔ جو چھوٹے بڑے ڈیم بنائے بھی گئے تھے وہ بھی اس پانی کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئے، پانی بنے بنائے ڈیم اپنے ساتھ لے گیا۔
ماضی میں سیلاب دریاؤں کے بہاؤ میں اضافے کے بعد آتے تھے اس مرتبہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے۔ اس کا پاک سرزمین کو سامنا رہے گا، جو اس سال ہوا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگلے سال نہیں ہوگا۔ اب یہ ممکن نہیں، اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ اب پاکستان کی آبادی کو اس کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا۔ اس کی روشنی میں ہمیں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنا ہوگی وگرنہ آج کی سی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماضی میں پہاڑی علاقوں میں گلیشئر پگھلنے اور مون سون کی بارشوں کے باعث دریاؤں میں پانی بہاؤ تیز ہوجاتا تھا اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔
پاکستان میں بہنے والے دریا جس میں دریائے سندھ سرفہرست ہے ملک کا جو بھی دریا ہے اس کا تمام پانی دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ سندھ سے گزر کر یہ سمندر برد ہوتا ہے۔ ماضی میں ان دریاؤں میں تاریخی ریلے گزرے ہیں مگر آج ہم ایک جائزہ لیتے ہیں کب اور کس وقت ان دریاؤں نے اس کا دباؤ برداشت کیا ہے۔
آج ہمیں ان دریاؤں میں پانی کا بہاؤ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ نظر آتا ہے۔ آج تک ان دریاؤں میں چھ لاکھ سے زائد کا ریلا ابھی تک نہیں گزرا ہے۔
دریائے سندھ کے گڈو بیراج پر 1976 میں 11 لاکھ 99 ہزار سے زائد کیوسک کا سیلابی ریلا گزرا تھا، اس کے علاوہ اسی مقام پر 1986 یعنی دس سال بعد 11 لاکھ 72 ہزار کیوسک اور 1988 میں 11 لاکھ 62 ہزار سے زائد کیوسک کا ریلا گزر چکا ہے۔
سکھر بیراج پر سب سے بڑا ریلا جو انتہائی اونچے درجے کا تھا، 15 اگست 1986 کو 11 لاکھ 66 ہزار کیوسک سے زائد، اسی طرح اس مقام سے 1976 میں 11 لاکھ 61 ہزار کیوسک اور 2010 میں 11 لاکھ 30 ہزار سے زائد کیوسک کا ریلا گزر چکا ہے۔
کوٹری بیراج پر سب سے بڑا تاریخی ریلا 1956 میں 9 لاکھ 80 سے زائد کیوسک پانی سمندر کی جانب گیا۔ اس کے علاوہ 2010 میں 9 لاکھ 64 ہزار کیوسک سے زائد انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا اور 1994 میں اس مقام پر 8 لاکھ 26 ہزار کیوسک سے زائد کا ریلا گزرا۔
دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر سب سے بڑا سیلابی ریلا 2010 میں 8 لاکھ 32 ہزار سے زائد کیوسک، اٹک پر یہ ریلا 9 لاکھ 79 ہزار کیوسک، چشمہ پر 10 لاکھ 38 ہزار کیوسک کا ریلا، تونسہ کے مقام پر 9 لاکھ 59 ہزار کیوسک، کالا باغ پر 9 لاکھ 37 ہزار کیوسک جبکہ اسی مقام پر 1942 میں 9 لاکھ 50 ہزار کیوسک اور 1976 میں 8 لاکھ 62 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ رکارڈ کیا گیا تھا۔
دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر ستمبر 1992 میں انتہائی اونچے درجے کا 10 لاکھ 90 ہزار کیوسک سیلابی ریلا جبکہ اسی مقام پر 1929 میں 10 لاکھ 60 ہزار کیوسک اور 1959 میں 10 لاکھ 45 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا گزر چکا ہے۔ رسول کے مقام پر 10 ستمبر 1992 کو 9 لاکھ 52 ہزار کیوسک کا انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر چکا ہے۔
دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر تاریخی سیلابی ریلا اگست 1956 میں انتہائی اونچے درجے کا 11 لاکھ کیوسک، خانکی پر 1959 میں 10 لاکھ 86 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا، قادر آباد کے مقام پر ستمبر 1992 میں 9 لاکھ 48 ہزار سے زائد کیوسک کا سیلابی ریلا، تریمو پر 1928 میں 9 لاکھ 44 ہزار سے زائد کیوسک اور پنجند پر اگست 1973 میں 8 لاکھ 2 ہزار کیوسک سے زائد کا ریلا گزر چکا ہے۔
دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر 1955 میں 6 لاکھ 80 ہزار سے زائد کیوسک کا انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا، شاہدرہ کے مقام پر 1988 میں 5 لاکھ 76 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا، اس کے علاوہ بلوکی اور سندھنائی کے مقام پر بھی 1988 میں 4 لاکھ کیوسک سے کم کا سیلابی ریلا گزر چکا ہے۔
دریائے ستلج پر اکتوبر 1955 میں سلیمانکی کے مقام پر 5 لاکھ 98 ہزار کیوسک اور 1988 میں 3 لاکھ 99 ہزار سے زائد کیوسک کا سیلابی ریلا کا اور اسلام کے مقام پر اکتوبر 1955 میں 4 لاکھ 92 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا اور 1988 میں 3 لاکھ 8 ہزار کیوسک کا سیلابی گزر چکا ہے۔
1932 میں بنایا گیا سکھر بیراج جو اپنی مدت پوری کر چکا ہے اس کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس پر نیا بیراج بنایا جائے، ساتھ کوٹڑی بیراج جامشورو پر بھی نیا بیراج تعمیر کرنے کی ضرورت ہے یہ اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔ اس طرح دیگر بیراجوں پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ایک قومی ورثہ ہے ان کو بچانے کی اشد ضرورت ہے اس کو اپنی ترجیح میں شامل کیا جائے۔ ملک کی زراعت کا انحصار ان بیراجوں پر ہے۔
سیلاب آتے رہیں گے مون سون ماضی کے مقابلے میں شدت کے ساتھ حملہ آور ہوگا اس کی پیش بندی ضروری ہے اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی ایسا نہ ہو کہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ جو دم غافل سو دم کافر۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔