بلاگ
Time 03 ستمبر ، 2022

کیا انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہئے؟

سر ونسٹن چرچل کا عالمی جنگ کے دوران بولا گیا یہ فقرہ زبان زد عام ہے کہ ’’ ہماری عدالتیں اگرانصاف فراہم کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ حالانکہ اس وقت ہٹلر کی بے لگام ایئر فورس لندن کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی تھی۔ جن لوگوں کو اس دانائی کی معنویت سمجھ نہیں آئی، وہ ہماری پاکستانی عدلیہ کے حالات و واقعات کا گہرائی سے مطالعہ کریں گے تو تمام حقائق روشن ہوجائیں گے۔

قانون کا ایک معروف اصول ہے کہ انصاف ہونا ہی نہیں چاہئے ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے بصورت دیگر لوگوں کا انصاف کی فراہمی کے عمل سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ بات محض یہ ہے کہ ایک شخص آپ کا بہت لاڈلااور چہیتا ہے، آپ کےخاندان والوں کو بھی بہت اچھا لگتا ہے یا ہماری بہت بڑی آبادی اس کے سحر میں مبتلا ہے ، ہمارا میڈیا بھی پچھلی تقریباًنصف صدی سے ہینڈ سم، ہینڈ سم کی رَٹ لگا کر اسے ایک ہیرو کے روپ میں پیش کرتا چلا آ رہا ہے اورآج بہت سےعاقبت نااندیش اسے ایک نجات دہندہ کے روپ میں پیش کر رہے ہیں۔ آپ یہ تمام تر سرگرمی ضرور انجام دیں تاکہ پوری قوم کو اپنے اس مسیحا کی حقیقت کا علم ہو جائے۔ جسے شک ہے وہ ستم گر محبوب کے ظلم و جبر پر مبنی اردو شاعری کا مطالعہ فرمالے جو ان کی تمنا ہے برباد ہو جاتو پھر اے دل تڑپ اور ابھی جان دے دے۔

مسئلہ آپ کی عاشقی معشوقی کا نہیں ہے، نظامِ انصاف کے بھرم کا ہے۔ آپ عوام کی آنکھوں میں لفاظی کے ساتھ دھول ضرور جھونکیں مگر یہ مت بھولیں کہ تمام22کروڑ عوام بصیرت سے عاری نہیں ہیں۔ عظیم امریکی صدر ابراہام لنکن نے کیا خوب کہا تھا کہ آپ طویل عرصہ کے لئے کچھ لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں یاکچھ عرصہ کے لئے بہت سے لوگوں کو احمق بنا سکتے ہیں مگر یہ ممکن نہیں کہ آپ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف بنا سکیں۔یہ انصاف کی کونسی نئی صنف نازل ہوئی ہے کہ ایک شخص آپ کے خیال میں بہت پاپولر ہے۔ ہینڈ سم ہے یا اس کا قد کاٹھ متاثر کن ہے تو اس کے لئے انصاف کے پیمانے یا معیارات ہی بدل جائیں گے۔

ابھی کل ہی سرگودھا کی جلسی میں کہہ رہا تھا کہ جب پاکستان بنا تو اس کی آبادی چالیس کروڑ تھی پھر اس کو دہراتے ہوئے اصرار کئے جا رہا ہے کہ ساتھ کھڑے ’’عالی دماغوں‘‘ نے متوجہ کیا، نہیں سرکار تب پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ نہیں چالیس لاکھ تھی، تو کہتا ہے اچھا اچھا چالیس لاکھ تھی۔ بھائی جس بات کا آپ کو یا آپ کے حواریوں کو سرے سے کچھ علم ہی نہیں، اس کو بیان کیوں کرتے ہو؟ پھر اصرار ہے کہ پورے دین و دنیا کو کوئی مجھ سے بڑھ کر نہیں جانتا۔

ایک ملزم کی حیثیت سے آپ کی عدالت میں پیش ہوا ہے تو اس کا یوں ریڈ کارپٹ استقبال، چہ معنی دارد؟ ملزم کٹہرے میں جواب دہی کے لئے عدالت کے روبرو کھڑا ہوتا ہے یا شہنشاہِ معظم بن کر ہم جولیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے کرسیوں پر یوں براجمان رہتا ہے؟ جیسے اس عظیم محکمے کا فیتہ کاٹنےکوئی سلیبرٹی آیا ہے؟ کیا قناتیں ہیں اور کیا پروٹوکول ہے، کیا سیکورٹی اہتمام اور ہٹو بچو ہے؟ اور اس کے روبرو اپنی صفافیاں پیش کی جا رہی ہیں کہ ہم تو اپنی توہین کو کوئی جرم سمجھتے ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔معاف کیجئے دہشت گردی بارودی جیکٹ پہن کر مسجد یا بازار میں بم پھوڑنا ہی نہیں ہوتی بلکہ دہشت گردی کا مطلب دوسروں کو دھمکانا یا خوفزدہ کرنا بھی ہے۔ اور اگر کوئی عادی ملزم ہمیشہ سے یہ وتیرہ اپنائے چلا آ رہا ہے اور جلسوں میں نام لے لے کرسیاسی مخالفوں کو دھمکاتا رہا ہے۔

پھر یہ معافی کا تصور بھی کیسا عجیب ہے توہین و دھمکی ایک قابلِ صد احترام خاتون جج صاحبہ کو نام لے کر دی جا رہی ہے جب کہ معافی نامہ کہیں اور پیش کیا جا رہا ہے۔ چلئے ضابطوں کا احترام ضروری ہے مگر سپریم جوڈیشری کے سابقہ فیصلے بھی سامنے ہوں گے؟جب معززسیاسی کارکنوں و لیڈرز کے طویل و عریض معافی ناموں کے باوجود ان کے ساتھ سوتیلے بچوں کا سا سلوک روا رکھا گیا۔ ذرا نہال، طلال اور دانیال کے کیسز نکال کر ایک نظر ان سیاستدانوں کے ساتھ روا رکھے گئے ’’حسنِ سلوک‘‘ پر بھی ڈال لی گئی ہوتی۔

یہ معزز وکیل صاحب کیا وہی نہیں ہیں جو اسی نوع کے ایک کیس میں منتخب وزیر اعظم گیلانی کو نااہل قرار دلوانے کے لئے دلائل کے انبار لگا رہے تھے اور آج ایک ملزم کے لئے معافی کے طلب گار ہیں؟ کیا انصاف کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس سابق وزیر کو بھی پکڑا جائے جو یہ کہتا ہے کہ میرا لیڈر بھٹو اور نواز شریف سے زیادہ پاپولر ہے اس لئے وہ کوئی بھی بات کر سکتا ہے، اس پر کوئی آنچ نہیں آسکتی، بلکہ ایسی عدالتوں کی پکڑ ہونی چاہئے جو ان کی طرف غلط انداز نظروں سے دیکھیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔