بلاگ

پاکستان ایشیا کپ کے فائنل میں

اس وقت جب پاکستان کے عوام سیلاب میں گھر ے ہوئے ہیں اور ہر شخص پریشان نظر آرہا ہے، پاکستانی ٹیم نے ایشیا کپ کے 2اہم میچوں میں پہلے بھارت اور پھر افغانستان کو شکست دے کر پاکستانیوں کے چہروں پر رونقیں بکھیر دی ہیں ۔

 پاکستان اور بھارت کا جب بھی میچ ہو تا ہے اس پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوتی ہیں ۔ایشیا کپ 2022میں پاکستان کا پہلا میچ اورپہلا ہی مقابلہ بھارت سے تھا ،بھارت نے یہ میچ دلچسپ مقابلے کے بعد 5وکٹوں سے جیت لیا۔ میچ کا فیصلہ دو گیندیں پہلے ہوا،پاکستانی ٹیم پہلے کھیلتے ہو ئے 19.5اوورز میں 147رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی ۔بھارت نے 19.4اوورز میں مطلوبہ ہدف پورا کر لیا۔

پاکستان کا دوسرا میچ ہانگ کانگ کے ساتھ تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم دھواں دھار کارکردگی دکھاتے ہوئے کمزور حریف پر قہربن کر ٹوٹ پڑی۔جمعے کی شب شارجہ میں پاکستان نے مقررہ 20 اوورز میں 2وکٹوں پر 193رنز بنائے اور حریف ٹیم کو صرف 38رنز پر آئوٹ کر دیا ۔ یہ رنز کے اعتبار سے پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی میں سب سے بڑی اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز میں کسی ٹیم کی نویں بڑی فتح ہے۔

متحدہ عرب امارات میں جاری ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے سپر فور مرحلے میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بائولنگ کروانے کا فیصلہ کیا تو بھارت نے مقررہ 20 اوورز میں7 وکٹوں کے نقصان پر 181 رنز بنائے، پاکستان کے خلاف بھارت کا آغاز کافی اچھا رہا، صرف 5 اوورز کے اندر بغیر کسی نقصان کے 50 رنز مکمل کئے گئے ۔بھارت کی پہلی وکٹ 54 کے مجموعی اسکور پر گری، روہت شرما 16 گیندوں پر 28 رنز پر آئوٹ ہوئے۔ بھارت کو دوسرا نقصان کے ایل راہول کی صورت میں اٹھانا پڑا وہ بھی 28 رنز بناسکے۔اس کے علاوہ سوریا کمار یادیو 13، رشبھ پنٹ 14 اور ہاردک پانڈیا صفر پر آئوٹ ہوگئے۔

جہاں بھارت کی وکٹیں گر رہی تھیں وہیں دوسری جانب ویرات کوہلی میدان کے چاروں اطراف دل کش شاٹس کھیل رہے تھے۔کوہلی نے 44گیندوں پر 60رنز کی اننگز کھیلی۔ یوںبھارت نے مقررہ 20اوورز میں 7وکٹوں کے نقصان پر 181رنز بنائے۔جواب میں پاکستان نے دلچسپ مقابلے کے بعد بھارت کو آخری اوور میں5وکٹوں سے شکست دے دی۔

بدھ کو شارجہ اسٹیڈیم میںچوتھے میچ میں بابر اعظم نے ٹاس جیت کر بائولنگ کرانے کا انتخاب کیا اور افغان بیٹنگ کو چھ وکٹ پر129رنز تک محدود رکھا۔ حضرت اللہ زازئی اوررحمن اللہ گر باز نے 23گیندوں پر36رنزکا اوپننگ اسٹینڈ دیا۔زازئی نے 17گیندوں پر 21رنز ،ابراہیم زدران نے 35گیندوں پر 37رنز ،کریم جنت نے15،نجیب اور عظمت نے 10،10 جبکہ راشد خان 15گیندوں پر 18رنز بنا کر آئوٹ ہو ئے ۔

حارث رئوف نے چار اوورز میں26رنز دے کر2 وکٹ حاصل کئے۔ نسیم شاہ نے 19،محمد نواز نے23اورشاداب خان نے27اور محمد حسنین نے 34 رنز دے کر ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔جواب میں بابر اعظم 0،فخر زمان 5،محمد رضوان 20،افتخار احمد30،شاداب خان نے 42رنزاور آصف علی 16رنز بنا کر آئوٹ ہوئے تو پاکستانی ٹیم 19اوورز میں 119رنز کر کے 9وکٹیں گنوا چکی تھی ۔ نسیم شاہ جب بیٹنگ کیلئے آئے تو پاکستان کی ہار یقینی دکھائی دے رہی تھی لیکن نسیم شاہ نے4گیندوں پر14 رنز ناٹ آئوٹ رنز بناکر پاکستان کو حیران کن فتح دلوادی۔

نسیم شاہ کے آخری اوور میں 2چھکوں نے جاوید میانداد کے شارجہ میں لگائے چھکے کی یاددلا دی۔ ان کے دوسرے چھکے کے بعد پاکستانی ٹیم والہانہ انداز میں مبارک باد دینے گرائونڈ میں داخل ہوگئی۔ شارجہ اسٹیڈیم کے باہر ہر جانب جشن تھا۔ پاکستان نے ڈرامائی فتح 4 گیند پہلے حاصل کی۔ دوسرے مرحلے میں دوسری کامیابی کے ساتھ بھارت اور افغانستان میں صف ماتم بچھ گئی۔دونوں ٹیمیں یعنی بھارت اور افغانستان ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئیں۔ پاکستان اور سری لنکا کا فائنل آج دبئی میں کھیلا جائے گا۔

جب افغانستان میچ ہار گیا تو اس نے پاکستان کے شائقین پر باہراور دبئی اسٹیڈیم میں کرسیا ں ماریں اوراسٹیڈیم کو بھی نقصان پہنچایا، ہمیشہ سے جب بھی افغانستان میچ ہارتا ہے تو اس کے شائقین اور ان کے کھلاڑی ایسا ہی کرتے ہیں جیساکہ آپ نے دیکھا کہ ان کے کھلا ڑیوں نے بھی کھیل کے دوران جب آصف نے ایک گیندپر چھکا مارا اور دوسری گیندپر آؤٹ ہوا تو افغانستان کے کھلاڑی نے اس کے آؤٹ ہونے پر بہت ہی بے ہودہ ڈانس کیا اور پاکستانی کھلاڑی کو دھکے بھی دئیے۔

ہمارے کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ اس پر احتجاج کرےیہی حرکت افغانستان کے کھلاڑیوں نے انگلینڈ میں بھی کی تھی۔ نہ آئی سی سی نے ان کے خلاف کوئی اقدام کیا نہ ہمارے کرکٹ بورڈنے افغانستان کے اس رویے کے خلاف کوئی احتجاج کیا۔ہمارے کرکٹ بورڈکو چاہئے کہ پہلی فرصت میں جس کھلاڑی نے بدتمیزی کی ہے،اس کو سزا دلوائیں ۔ یہی اگرپاکستانی کرتے تو کیا افغانستان والے ہمارے ساتھ یہی رویہ اختیار کرتے؟ پاکستان کوافغان کھلاڑیوں کے غیرذمہ دارانہ رویے پر احتجاج کر نا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔