سیاست میں ’’پلس، مائنس‘‘ کا فارمولا

فوٹو فائل
فوٹو فائل

سابق وزیراعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے کچھ سیاسی اور غیر سیاسی کردار ان کے پیچھے ہیں اور وہ ممکنہ نااہلی کے ذریعے انہیں سیاسی منظر نامے سے’’مائنس‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔

پہلا یہ کہ ان کا خوف کتنا حقیقی ہے اور دوسرا یہ کہ اسکا مقابلہ کرنے کیلئے ان کے ذہن میں حکمت عملی کیا ہے؟ ہفتہ کو انہوں نے اپنی احتجاجی کال کو ایک بار پھر موخر کردیا جس کی ان کے پیروکار گوجرانوالہ کے جلسہ میں ان سے توقع کررہے تھے۔

تیسرا یہ کہ اگر انہیں نااہل قرار دے دیا جائے تو حتمی سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا کیونکہ ماضی میں تاریخی طور پر اس طرح کی مشقیں ناکام ہو گئی تھیں۔ عمران، اس وقت ایک خاتون جج کے خلاف اپنے مبینہ تضحیک آمیز ریمارکس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس سمیت گزشتہ پانچ ماہ میں اپنے خلاف درج کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے غیر مشروط معافی نامہ جمع نہ کروا کے خود کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے اور اب 22 ستمبر کو باقاعدہ چارج کا سامنا کریں گے۔ یہاں تک کہ ایک معمولی سزا بھی انکی نااہلی کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کی قانونی ٹیم نے انہیں تحریری طور پر معافی مانگنے اور طریقہ کار کے مطابق 5 رکنی بنچ کو فیصلہ کرنے دینے کا مشورہ دیا ہے۔

دوسرا کیس جس میں عمران کو اعتماد ہے اور وہ اب بھی مانتے ہیں کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ مشکل میں پڑ سکتے ہیں وہ ʼتوشہ خانہ ہے جس میں انہیں اپنے ٹیکس گوشواروں میں اسے ظاہر نہ کرنے کے الزام کا سامنا ہے، یہ اگر ان کے خلاف ثابت ہوا تو ان کی نااہلی کا باعث بن سکتا ہے۔

تیسرا مقدمہ جس کو ہر کوئی بہت قریب سے دیکھ رہا ہے وہ ہے ʼفارن فنڈنگ، لیکن قانونی ماہرین اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا یہ ان کی نااہلی کا باعث بن سکتا ہے یا نہیں۔ حکومت کے لیے یہ ثابت کرنا شاید آسان نہ ہو کہ یہ معاملہ ’’فارن ایڈڈ پارٹی‘‘ کا تھا نہ کہ غیرملکی فنڈڈ، شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ابھی تک تحریک انصاف کیخلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا اور نہ ہی اس پر ابھی تک پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔

سابق وزیراعظم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ساتھ بھی براہ راست مقابلہ کیا ہے خاص طور پر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف جن کے سامنے وہ توہین عدالت کے مقدمہ کا سامنا بھی کر رہے ہیں، عمران خان نے ایک بار پھر ان کیخلاف نازیبا زبان استعمال کی ہے۔

عمران جنہیں ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے خلاف ایک مقدمے میں ’’صادق اور امین‘‘ قرار دیا گیا تھا، اس سال 10 اپریل کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے بے دخل کیے جانے کے بعد سے اب عملی طور پر تمام محاذ کھول چکے ہیں۔ ان کا پہلا حملہ اعلیٰ عدلیہ پر تھا جب آدھی رات کو سپریم کورٹ کھلی اور تحریک عدم اعتماد کیخلاف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیا۔

بعد ازاں لاہور میں سپریم کورٹ کا ایک اور بنچ بھی نصف شب کے قریب کھل گیا اور پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ق) کو ریلیف فراہم کیا۔ صورتحال اس وقت عمران اور پی ٹی آئی کے حق میں چلی گئی جب پی ٹی آئی سے وفاداریاں تبدیل کرنے اور وزیراعلیٰ کے انتخابات میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے 20 ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دے دیا گیا۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد نے ضمنی انتخابات میں 20 میں سے 15 نشستیں جیت کر کلین سویپ کیا جس کے نتیجے میں انکی حکومت کی واپسی ہوئی اور چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس کے باوجود عمران کو خدشہ ہے کہ کچھ قوتیں جو امریکہ کے ساتھ عدم اعتماد کے ووٹ کے پیچھے بھی تھیں اب انہیں سیاسی منظر نامے سے بھی ہٹانا چاہتی ہیں، جس سے پارٹی میں پھوٹ پڑ رہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان کی پنجاب حکومت کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ماضی میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولہ کبھی کامیاب نہیں ہوا لیکن اسے آزمایا گیا اور اس نے نظام پر دور رس سیاسی اثرات چھوڑے جیسا کہ سابق منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ’’عدالتی قتل‘‘ کے معاملے میں ہوا تھا۔

انہیں اس وقت پھانسی دی گئی جب ان کی مقبولیت بہت زیادہ تھی اور جنرل ضیاء نے اکتوبر 1977میں انتخابات ملتوی کر دیئے تھے۔ مائنس ون کا اطلاق سب سے پہلے اس وقت ہوا جب ضیا نے غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کا اعلان کیا، پہلی باضابطہ مائنس پولیٹیکل پارٹیز پارلیمنٹ 1985میں قائم کی گئی لیکن اس کا مقصد صرف پیپلزپارٹی کو باہر رکھنا تھا۔

پیپلزپارٹی کو باہر رکھنے کیلئے انتخابات کے بعد ضیا نے اپنی پارٹی مسلم لیگ بنائی اور محمد خان جونیجو کو وزیراعظم منتخب کیا، لیکن جونیجو نے سیاسی اور شہری آزادیوں پر پابندیاں ہٹادیں جس کی وجہ سے بینظیر واپس آئیں اور لاہور میں تقریباََ 5 لاکھ لوگوں نے انکا استقبال کیا، اس طرح مائنس پی پی پی فارمولا ناکام ہوگیا۔

بینظیر کی پہلی دو حکومتوں کو کبھی اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور انہیں غیر مقبول بنانے کے لیے آئی جے آئی اور مہران بینک جیسی کوششیں کی گئیں۔ اس میں انکی خراب حکمرانی نے بھی حصہ ڈالا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو شکست دینے کے بعد انہیں حکومت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی، نواز شریف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا جب مائنس جونیجو فارمولے کے بعد وہ مسلم لیگ کے سربراہ بنے۔

1997 میں ان کی جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی لیکن آخر کار 12 اکتوبر 1999 کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ایک غیر مارشل لاء کے ذریعے فوج نے اقتدار سنبھالا اور جنرل (ر) پرویز مشرف آرمی چیف ہوتے ہوئے پہلے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر پاکستان بنے۔ چونکہ مشرف 2002 کے عام انتخابات سے پہلے مائنس بے نظیر اور مائنس شریف دونوں چاہتے تھے اس نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں میں پھوٹ ڈال دی۔

یہ فارمولہ بھی قائم نہ رہ سکا کیونکہ بینظیر اور نوازشریف دونوں نے متحد ہوکر میثاق جمہوریت پر دستخط کردیئے تھے۔ دونوں رہنمائوں نے وکلا تحریک کیساتھ ملکر ایسی صورت حال کو جنم دیا کہ پرویز مشرف پہلے آرمی چیف اور بعد میں 2008 کو صدر کے عہدے سے بھی دستبردار ہوئے لیکن یہ 27 دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کے قتل کے سانحہ سے پہلے نہیں ہوا، اور پھر یہ دونوں پارٹیاں 2008 اور 2013 میں اقتدار میں لوٹ آئیں۔

2016 میں مسلم لیگ (ن)اور نواز شریف کو پاناما کیس میں نااہلی کا سامنا کرنا پڑا اور ایک سال بعد انہیں سزا سنائی گئی اور وہ عملی طور پر مائنس ہوگئے لیکن ان کی مقبولیت برقرار رہی اور 2018 کے الیکشن میں انکی پارٹی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری، جب 2018 میں عمران خان پہلی بار وزیراعظم بنے تو ان کی حکومت کے اکتوبر 2021 تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نسبتاً بہتر تعلقات تھے اور اپنے پہلے تین سالوں میں انہوں نے اپوزیشن کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔

مزید خبریں :