14 ستمبر ، 2022
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر اور پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے اوپنرز پاکستان کو کوئی ٹورنامنٹ جتوانے والے نہیں ہیں ، مجھے نہیں سمجھ آتی ہے کہ جس طرح کی ہم کرکٹ کھیل رہے ہیں اس میں ہم کیسے نکلیں گے ۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہو ئے عاقب جاوید نے کہا کہ جو رنز کر رہا ہے ہم اسے کھلاتے نہیں ہیں جبکہ کچھ کھلاڑی ایسے ہیں انہیں ہم بار بار چانس دے رہے ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ شان مسعود رنز کر کے پاگل ہو گیا ہے لیکن ہم نہیں کھلا رہے ، شعیب ملک کو لے لیں، شعیب ملک کسی کی پسند نہیں یا ان کی عمر کا کسی کو مسئلہ ہے کہ وہ کب کے کھیل رہے ہیں ،تو پھر پہلے آپ شعیب ملک کا متبادل تو دیکھ لیں، اگر کوئی چوائس ہے تو ضرور کھلائیں ، تو کیا اب شعیب ملک کی جگہ صرف افتخار احمد ، خوشدل شاہ یا آصف علی ہی کھیلیں گے ؟جن کے 50،50 بار کم بیک ہو چکے ہیں ۔ ان میں سے کم از کم ایک کو بس ہونا چاہیے اور اسے بھی چھٹے ساتویں نمبر پر موقع دیں۔طیب طاہر کو کیوں چانس نہیں دیا جا رہا ،آغا سلمان بھی وائٹ بال کرکٹ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپنرز نمبر ون نمبر ٹو ٹی ٹوئنٹی بیٹرز ہیں لیکن یہ کوئی ٹورنامنٹ جتوانے والے نہیں ہیں، ان کا کیا کرنا ہے ، ایک اوپنر ان میں ہیں جو جب اننگز کا آغاز کرتے ہیں تو اس وقت رن ریٹ 8 کا درکار ہوتا ہے وہ 15 اوورز کھیلتے ہیں اور 17 کا رن ریٹ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔
عاقب جاوید نے کہا کہ فخر زمان کو نمبر تین پر کھلا کر بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے ، فخر کو اوپنر آنا چاہیے ، شان مسعود کو نمبر تین کھیلنا چاہیے جبکہ محمد رضوان کو نمبر چار آنا چاہیے جب فیلڈ کھل جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم میں جب آپ آجاتے ہیں تو آپ کو کوچنگ کی ضرورت نہیں ہو تی بلکہ آپ کو اپنے رول کا تسلسل کے ساتھ معلوم ہونا چاہیے ، یہاں کسی کو کچھ علم نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں 70 فیصد وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے پاکستان کی طرف سے کھیلنا نہیں ہے ، 6 ٹیموں میں انہیں کھلائیں جو آپ کو مستقبل میں کام آ سکیں۔
عاقب جاوید نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ شاہین آفریدی کو 45 روز ساتھ گھماتے رہے اور ان کی انجری کا پتہ نہ چلا اور انہیں انگلینڈ بھجوا دیا ، انجری کا پتہ چلا ہوتا تو آج شاہین آفریدی انگلینڈ کے خلاف سیریز کھیل رہے ہو تے ، کیا ہمارے نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں کوئی قابل ڈاکٹر نہیں ہے جو کھلاڑیوں کا خیال رکھ سکے؟