19 ستمبر ، 2022
خام ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ دنیا بھر میں فضائی سفر کی قیمت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی طیاروں کے کردار پر اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں مگر متبادل کیا ہے؟
پاکستان میں تو فی الحال تیز رفتار ٹرینیں کسی خواب سے کم محسوس نہیں ہوتیں مگر دنیا کے مختلف ممالک میں اس حوالے سے کافی کام کیا گیا ہے۔
150 سے 250 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی ٹرینیں طیاروں کا پرکشش متبادل بن کر سامنے آئی ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ ٹرینوں کا کرایہ طیاروں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اور زیادہ بڑی تعداد میں لوگ ان میں سفر کرسکتے ہیں۔
یورپ اور ایشیا میں اس طرح کی تیز رفتار ٹرینوں پر گزشتہ دہائیوں کے دوران اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے ہیں بالخصوص چین اس حوالے سے سب سے زیادہ نمایاں ہے، جس نے ملک کے لگ بھگ ہر حصے میں ٹرینوں کی رسائی کو ممکن بنا دیا ہے۔
اس کے علاوہ جرمنی، اسپین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک نے بھی اس حوالے سے کافی کام کیا ہے۔
مگر آپ کن جگہوں پر دنیا کی تیز ترین ٹرینوں پر سفر کرسکتے ہیں؟
دنیا کی تیز ترین ٹرین منفرد بھی ہے جو روایتی ٹریک کی بجائے مقناخیزی نظام کے تحت سفر کرتی ہے یعنی ٹرین پٹری کے مقناطیسی میدان پر ہوا میں معلق ہوکر چلتی ہے۔
یہ شنگھائی کے پوڈونگ ایئرپورٹ کو شہر کے مرکز سے ملاتی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 286 میل فی گھنٹہ ہے۔
30 کلومیٹر کا سفر یہ ٹرین محض ساڑھے 7 منٹ میں طے کرلیتی ہے۔
اس کامیابی کے بعد چین کی جانب سے 373 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی ماگلیو ٹرین کی تیاری پر بھی کام کیا جارہا ہے جو شنگھائی اور ہوانگزو کے درمیان مستقبل قریب میں سفر کرے گی۔
چین کی یہ ٹرین 217 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے مگر آزمائشی مراحل میں اس نے 260 میل گھنٹہ کی رفتار سے بھی سفر کیا۔
روایتی ٹریک پر یہ دنیا کی تیز ترین ٹرین ہے جس میں 16 بوگیاں موجود ہیں اور 12 سو مسافر ایک وقت میں اس میں سفر کرسکتے ہیں۔
اس میں سفر کے دوران اسمارٹ گلاس ڈسپلے، وائرلیس ڈیوائس چارجنگ اور اسمارٹ کیبن جیسی سہولیات مسافروں کو دستیاب ہوتی ہیں ۔
یہ ٹرین شدید موسمیاتی حالات سے بھی نمٹ سکتی ہے جبکہ خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
درحقیقت یہ دنیا کی اس وقت واحد خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی تیزرفتار ٹرین ہے۔
جرمنی بھی ٹرینوں کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے اور آئس 3 اس کی تیز ترین ٹرین ہے جس کی حد رفتار 205 میل فی گھنٹہ ہے۔
یہ 1999 سے لوگوں کو سفری سہولت فراہم کررہی ہے جس کے لیے کلون اور فرینکفرٹ کے درمیان 110 میل طویل ہائی اسپیڈ ٹریک بھی تعمیر کیا گیا، جس سے دونوں شہروں کے درمیان سفر ڈھائی گھنٹے سے کم ہوکر محض 62 منٹ کا رہ گیا۔
بعد ازاں اس سروس کا دائرہ دیگر شہروں تک بھی پھیلایا گیا بلکہ پیرس، ایمسٹرڈیم اور برسلز تک بھی نیٹ ورک کو توسیع دی گئی۔
فرانس کو ہائی اسپیڈ ریل ٹیکنالوجی کے بانیوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے اور یورپ کی پہلی تیزرفتار ٹرین بھی فرانس میں سامنے آئی تھی۔
فرانس کی ٹی جی وی ٹرینیں اس وقت 198.5 میل گھنٹہ کی رفتار سے ملک کے اندرونی حصوں کے ساتھ ساتھ برسلز اور لندن کا سفر بھی کرسکتی ہیں۔
جاپان نے دنیا میں 1964 میں تیز ترین ریلوے سسٹم کا تصور متعارف کرایا تھا اور جب سے اس حوالے سے دنیا کی قیادت کرتا آرہا ہے۔
جاپان کی زیادہ تر ٹرینیں تو 186 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر ای 5 بلٹ ٹرین 200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔
ٹرین میں 731 نشستیں موجود ہیں جبکہ اس میں نصب 32 موٹریں 12 ہزار 900 ہارس پاور فراہم کرتی ہیں۔
البراق
افریقہ کی پہلی بلکہ اب تک کی واحد تیز ترین بلٹ ٹرین کو عوام کے لیے نومبر 2018 میں کھولا گیا جو مراکش کے شہر کاسا بلانکا کو ساحلی شہر تنگیر سے ملاتی ہے۔
یہ مراکش کے 1500 کلو میٹر طویل ہائی اسپیڈ نیٹ ورک کے پہلے مرحلے میں متعارف کرائی گئی تھی جس کو فرانسیسی کمپنی نے تیار کیا اور یہ 198.5 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔
اسپین 1992 میں تیز رفتار ٹرینیں چلانے ممالک کی فہرست کا حصہ بنا تھا اور اس کے لیے فرانس سے ٹی جی وی ٹیکنالوجی کو درآمد کیا گیا۔
اب اس یورپی ملک نے اپنی سپر فاسٹ ٹرینیں تیار کرلی ہیں اور یورپ میں سب سے طویل ریل نیٹ ورک بھی اسی کا ہے۔
اے وی ای 193 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر حکام کے مطابق اسے 217 میل فی گھنٹے کی رفتار سے بھی دوڑایا جاسکتا ہے، کم از کم آزمائشی مراحل میں تو ایسا ہوا ہے۔
جنوبی کوریا کی یہ ٹرین 190 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔
سیئول سے بوسان جانے والی یہ ٹرین زیادہ سے زیادہ 205 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے مگر اسے 190 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہی دوڑایا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا میں ایسی ٹرینیں بھی تیار کی جارہی ہیں جو 260 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکیں گی مگر انہیں ابھی باضابطہ طور پر متعارف نہیں کرایا گیا۔
اٹلی کی یہ ٹرین 186 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے حالانکہ اسے 250 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
اس ٹرین کا انجن 10 ہزار ہارس پاور فراہم کرتا ہے جبکہ اس میں 457 نشستیں ہیں۔
مکہ اور مدینہ کے درمیان چلنے والی یہ ٹرین 186 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے اسپین کی تیار کردہ ٹالگو ٹرینوں کو صحرائی سفر کے لیے تبدیل کیا گیا اور یہ ٹرین 50 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی سفر کرسکتی ہے۔
مکہ سے مدینہ کے درمیان 279 میل کا فاصلہ یہ ٹرین 2 گھنٹے کے اندر طے کرسکتی ہے۔