ایم کیو ایم کے کارکن غلط جگہ مارے گئے

میں حق پرست صحافی ہوں،آپ اس جملے سے جو بھی مفہوم اخذ کریں لیکن کہنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیتا ہوں۔ دنیا میں جہاں کہیں ظلم وستم ہو، انسانی حقوق پامال کئے جائیں یا پھر کسی کے ساتھ زیادتی ہو تو مظلوم کے حق میں آواز اُٹھاتا ہوں مقبوضہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، میانمار، بھارت سمیت جہاں بھی مسلمانوں پر زندگی کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش کی جائے ،میں پہلی فرصت میں صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔

 تاہم کچھ عرصہ سے نہ صرف کنفیوژ ہوں بلکہ عجیب و غریب کشمکش کا شکار ہوں، ایم کیو ایم کے3 کارکن جو غالباً2016ء میں لاپتہ ہوئے تھے،حال ہی میں ان کی مسخ شدہ لاشیں موصول ہوئی ہیں ۔عابد عباسی کی لاش نوابشاہ ،وسیم راجو کا جسد خاکی میر پور خاص جبکہ عرفان بصارت کی میت سانگھڑ سے ملی ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ ناحق مارے گئے ان افراد کے لئے آواز اُٹھائوں لیکن دِقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں مظلومیت کا جو معیار رائج ہے ،یہ اس پر پورا نہیں اُترتے۔اگر یہ لوگ بھارت کے کسی شہر میں شیو سینا کے ہاتھوں مارے گئے ہوتے توایسی دہائی دیتا کہ میرے الفاظ پانی میں آگ لگا دیتے ۔بھارت یا مقبوضہ کشمیر نہ سہی، ان مرنے والوں کا تعلق پنجاب سے ہوتا تو ایسی صورت میں بھی اظہارِافسوس اور مذمت کا خطرہ مول لیا جاسکتا تھا مگران کا قصور یہ ہے کہ ایک تو غلط جگہ مارے گئے اور دوسرا ان کا تعلق بھی ایک ایسی لسانی جماعت سے ہے جس کی حب الوطنی مشکوک ہے۔

سچ بتاؤں تو ظلم و جبر کے خلاف قرطاس و قلم کی ایسی کیفیت سے پہلی بار سامنا نہیں ہوا ،ماضی میں بھی کئی بار اس طرح کے تذبذب کا شکار رہا۔مثال کے طور پر معروف سندھی ادیب اور ترقی پسند شاعر تاج جویو کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان ہوا ۔یہ ایوارڈ ملنے سے چند روز قبل ان کے بیٹے سارنگ کو اغواکرلیا گیاتو انہوں نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا ۔تاج جویو نے کہا کہ جب تک میرے ملک میں بچے جبری گمشدگیوں کا شکار ہوتے رہیں گے ،ایسے ہزار ایوارڈ بھی ملیں تو انہیں پھینک دوں گا۔اس سے پہلے ان کے بیٹے کا دفتر سیل کردیا گیا اور روزگار بند کرنے کی دھمکی دی گئی تو انہوں نے اپنے اسکالر بیٹے کے لئے رکشہ خرید لیا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔

2012ء میں سندھی مصنف عطا محمد بھنبھرونے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی وصول کرنے سے انکا رکردیا۔ گستاخی کی یہ سزا پائی کہ 2015ء میں ان کا بیٹا راجہ داہر لاپتہ ہوگیا اور پھر لگ بھگ ڈیڑھ ماہ بعد اس کی تشدد زدہ لاش کراچی سپر ہائی وے کے قریب ملی۔میں تب بھی ان سندھی دانشوروں کے حقوق کیلئے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا لیکن نوک قلم یہاں اٹک گئی کہ ایسا کرنے سے کہیں میری اپنی حب الوطنی مشکوک نہ ہوجائے۔

فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد تو آپ سب کو یاد ہی ہوں گے ۔2016ء میں غداروں اور وفاداروں کو چھانٹ کر الگ کرنے کے بعد انہیں سندھ رینجرز نے 90دن کیلئے حراست میں لیا مگربہیمانہ تشدد کے نتیجے میں موت واقع ہوگئی۔ایم کیو ایم پاکستان نے ڈرتے ڈرتے عدلِ راحیلی کی زنجیر ہلائی تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انکوائری کا حکم دے دیا ۔ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر جو بعد ازاں نہ صرف لیفٹیننٹ جنرل بنے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عرب میں سفیر بھی تعینات کئے گئے ،انہوں نے اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی بنائی مگر تادم تحریر نہ تو رپورٹ سامنے آئی اور نہ ہی ذمہ داروں کا تعین کرکے سزا دی جا سکی۔

میں نے آفتاب احمد کی ماورائے عدالت ہلاکت کی مذمت کرنے کا ارادہ تو کیا لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمت مجتمع نہ کرپایا۔ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی موت نے تو بہت افسردہ کردیا۔ہاورڈ فیلو اور یونیورسٹی آف کراچی میں فلاسفی کے سابق پروفیسر حسن عارف جن کا شمار ترقی پسند دانشوروں میں ہوتا ہے، ضیاالحق کے خلاف جمہوریت بحالی کی تحریک شروع ہوئی تو ڈاکٹر حسن عارف نے بہت متحرک اور فعال کردار اداکیالیکن پھر یوں ہوا کہ 2016ء میں ایک قابل اعتراض تقریر سننے کی پاداش میں ’’غدار ‘‘ٹھہرے۔ تاریخ گواہ ہے ڈاکٹر حسن عارف جیسے لوگ محض غیر ذمہ دارانہ تقریر سننے کے جرم میں پابند سلاسل رہے۔

اکتوبر 2016ء میں ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو تب حراست میں لیا گیا جب وہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کیلئے آرہے تھے ۔انگریزوں نے ہندوستان میں غلامی کے خلاف اُٹھ رہی آوازوں کو دبانے کے لئے ’مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس‘کے نام سے جو کالا قانون بنایا تھا ،پہلے تو اس کے تحت 2ماہ کراچی سینٹرل جیل میں قید رکھا گیا اور پھر انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمہ چلا کر زیر حراست رکھا گیا۔اپریل 2017ء میں ضمانت پر رہائی ملی ۔ہفتہ 13جنوری 2018ء کو ان کی بیٹی کو لندن جانا تھا ،ڈاکٹر حسن عارف اپنے وکیل عبدالمجید سے ملنے کے بعدروانہ ہوئے مگر گھر نہیں پہنچے۔

اتوار 14جنوری کی صبح تھانہ ابراہیم حیدری کی حدود میں الیاس گوٹھ کے علاقے سے ان کی گاڑی ملی جس میں ان کی تشدد زدہ لاش موجود تھی۔لاش کو جناح ہاسپٹل لے جایا گیا تو رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں۔72سالہ بوڑھے دانشور کے ساتھ اس سلوک پر دل و دماغ میں ہلچل تو بہت ہوئی مگر جذبات و احساسات صفحہ قرطاس پر منتقل نہ کرسکا۔گاہے خیال آتا ہے ،چند روز پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ میں وزیراعظم نے لاپتہ افراد کی تکالیف دور کرنے کا وعدہ کیا ،کیا ایم کیو ایم کے تین لاپتہ کارکنوں کی لاشیں پھینک کر اس کا جواب دیا گیا ہے؟یا پھر کوئی چاہتا ہے کہ ایم کیو ایم حکومتی اتحادسے الگ ہو جائے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔