Time 22 ستمبر ، 2022
بلاگ

خان صاحب، ذرا سوچیے!

اگر ہمیں اپنی قوم ، اپنے لوگوں اور خصوصاً اپنے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے اور نوجوان نسل کے کردار اور اخلاقی پستی کو دیکھنا ہے تو اپنے سوشل میڈیا کو دیکھ لیں۔ بدتمیزی، بد تہذیبی، گالم گلوچ وہ بھی ایسی کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو سوشل میڈیا پر بڑی مقدار میں ملے گا۔ 

تمیز سے بات کرنے کا تو کوئی رجحان ہی نہیں رہا اور خاص طور پر سیاسی اختلاف کے معاملے میں عدم برداشت کا چلن اس حد تک بڑھ چکا کہ اپنی سیاسی سوچ کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ اس بدتمیزی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ میں تحریک ِانصاف کا سوشل میڈیا سب سے آگے ہے۔

’’ افسوس ‘‘کا لفظ میں نے اس لئےاستعمال کیاکہ ایک تو تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اوراس کے سوشل میڈیا میں فالوورز بھی سب سے زیادہ ہیں، دوسرا یہ کہ اُس عمران خان کے ووٹرز، سپورٹرز اور چاہنے والوں کی بات کی جا رہی ہے جو معاشرےکی کردار سازی کی بہت بات کرتے ہیں، جو نوجوانوں کے اخلاق اور اُن کی تربیت پر زور دیتے ہیں، جو اسلامی تعلیمات کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ 

خان صاحب کو یہ سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ جن اسلامی تعلیمات پر فخر کر کے اس قوم کو سدھارنے کی وہ بات کرتے ہیں ، اُن کے اپنے ماننے والے ، چاہنے والے ووٹرز اور سپورٹرز اُس کے بالکل برخلاف کیوں جا رہے ہیں؟ بدتمیزی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ کے کلچر کا سب سے زیادہ تعلق تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سےکیوں جوڑا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اسلامی تعلیمات ، کردار سازی اور بہترین تربیت کی بات کریں لیکن جب عمل کا وقت آئے تو حالات اس کے بالکل برعکس دکھائی دیں۔

 سیاسی اختلاف کی بنیاد پر جس انداز میں تحریک انصاف اور اس کا سوشل میڈیا دوسروں پر بہتان تراشی کرتا ہے اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسلام کا نام لینے اور اسلامی تعلیمات کا حوالہ دینے والے خان صاحب کی تو کوشش ہونی چاہئے کہ اُن کے پارٹی رہنما اور فالوورز دوسروں کے لئے بہترین کردار اور اخلاق کی وجہ سے رول ماڈل ہوں لیکن معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔

 اکثر کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے معاشرے میں ایک ایسی پود تیار کر دی ہے جو نہایت بدتمیز اور بدتہذیب ہے اور سیاسی طور پر اس قسم کے عدم برداشت کا شکارہے کہ اپنے رہنما کی بات کے خلاف کوئی دوسری بات سننا ہی نہیںچاہتی،اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتی، جو اختلاف کرے اُس پر جھوٹے الزامات لگاتی ہے ۔ خان صاحب کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ وہ ایسا کیا کر رہے ہیں کہ اُن کے ووٹرز ،سپورٹرز میں جیسے نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔

 خان صاحب یہ بھی دیکھیں کہ یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں بسنے والے پاکستانی جن کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی تصور کی جاتی ہے وہ عمران خان کی محبت میں اختلاف کرنے والوں کے ساتھ سوشل میڈیا میں ایسے بدزبانی کیوں کرتے ہیں جیسے اُن کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہو؟ خان صاحب کہتے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام اُن کے ساتھ ہیں اور یہ کہ وہ معاشرےمیں انقلاب لا رہے ہیں۔ 

کوئی پوچھے جب عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر نفرت کو کیوں پھیلا رہے ہیں، بدتمیزی اور بدتہذیبی کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کرتے، اپنے سوشل میڈیا کو کیوں نہیں کہتے کہ اختلافِ رائے کا اظہار تمیز کے دائرے میں رہ کر کریں اور جھوٹ، بہتان تراشی اور لغوالزامات سے باز رہیں؟خان صاحب کو اپنے بعض پارٹی رہنماؤں اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے رویے کا بغور جائزہ لینا چاہئے اور ایسا کرتے وقت اُن اسلامی تعلیمات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے جن کا وہ بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہےکہ خان صاحب کے سمجھ میں آ جائے اور وہ کسی بڑی خرابی کی بجائے کسی بڑی بھلائی کا سبب بن جائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔