Time 26 ستمبر ، 2022
بلاگ

افغان طالبان اور میڈیا

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

گوریلا جنگوں کے ماہر طالبان کو شہری علاقوں میں آ کر جدید تعلیم سے آشنا ترقی پسند معاشرے پر حکمرانی کے ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑ رہا ہے جس سے بیک وقت کئی منفی اور مثبت واقعات کا ایک سلسلہ جنم لے رہا ہے اور ذرائع ابلاغ کو بھی اس تبدیلی کی وجہ سے کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

گزشتہ ایک سال میں افغانستان پر طالبان حکومت کے دوران گزشتہ حکومت سے یکسر مختلف پالیسیوں اور معاشی بحران کی وجہ سے میڈیا پر خاصا مشکل وقت گز را، اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اپنی ادارتی پالیسیوں میں کئی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ 

آزاد ذرائع کے مطابق نئی حکومت کے آنے کے بعد 5 ہزار سے زائد صحافیوں کو بے روزگار ہونا پڑا۔ دوسری جانب افغان طالبان کے حکومتی ذرائع ان حالات کو ملک کے معاشی بحران سے منسلک کرتے ہیں لیکن دونوں صورتوں میں صحافت کے شعبے کو جو نقصان پہنچا اس کا فوری ازالہ ممکن نظر نہیں آ رہا۔

 معاشی بحران میں گھرے افغانستان کے ہر شعبے کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ اس کے باوجود افغانستان کا میڈیا نئے حالات کا سامنا کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنی ذمہ داریاں سرانجام کی کوشش کر رہا ہے جو کہ قابل تحسین عمل ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ افغانستان پر ایک سال حکومت کرنے کے بعد افغان طالبان کو یہ احساس ہونے لگا ہےکہ آزاد میڈیا سے مخاصمت کو کم کرنا چاہیے اور میڈیا پر بے جا پابندیوں کی بجائے مذاکرات کے ذریعے’ کچھ لو اور کچھ دو‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے میڈیا کے نمائندوں سے تعلقات کو بہتر بنانا چاہیے۔ 

ان کے رہنمائوں کے بیانات میں اس تاثر کا اکثر اظہار کیا جاتا ہے کہ معاشرے کی ترقی میں میڈیا کا اہم کردار ہے اور واقعات کو چھپانے کی بجائے ان کے حوالےسے آزاد اور غیر جانبدار معلومات کی عوام تک رسائی سے مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے اور عوام تک درست معلومات پہنچانا آزاد میڈیا کی اولین ذمہ داری ہے، خواہ وہ معلومات حکومت کی پالیسی اور کارکردگی کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔

افغانستان کے میڈیا سے متعلق حکومتی اداروں میں موجود طالبان ذمہ داروں کی اکثریت اس رائے کی حامل ہے کہ اگر آزاد میڈیا کی مشکلات میں فوری کمی ممکن نہیں تو کم از کم ان میں اضافہ نہ کیا جائے۔ 

میڈیا کی ادارتی پالیسیوں میں تبدیلی کے علاوہ ایک اہم معاملہ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کی مشکلات کا بھی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں شہروں، دیہاتوں، شاہراہوں، گلی محلوں میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے والے افراد کو طالبان سپاہیوں کی جانب سےاز خود مارپیٹ ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ افغان طالبان کے فیلڈ کمانڈر خاصے خودمختار اور طاقتور ہیں۔

اسی طرح ’مثبت رپورٹنگ  ‘ نہ کرنے پر طالبان خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے کئی مرتبہ صحافیوں کو طلب کر کے ’دوستانہ نصیحت‘ بھی کی۔ سرحد کے دونوں طرف ایسے واقعات کی حساسیت اور مماثلت کو مدنظر رکھتے ہوئے پازٹیو رپورٹنگ اور فرینڈلی ایڈوائس کی اصطلاحات کو پاکستانی صحافی بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

صحافیوں پر ہونے والے تشدد کے ان واقعات کی حدت معتدل طالبان رہنماؤں میں خاصی محسوس کی گئی جس کے بعد طالبان رہنماؤں ، صحافیوں اور حکومتی عہدےداروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جہاں میڈیا نمائندوں اور طالبان دونوں کی ایک دوسرے سے متعلق تمام شکایات کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور فیلڈ میں موجود طالبان سپاہیوں اور خفیہ اداروں کو کسی بھی طرح کا ’ازخود نوٹس‘ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ 

طالبان حکومت کے اس اقدام کو آزادی صحافت کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت شمار کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ میڈیا سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے طالبان کی مرکزی میڈیا ٹیم میں بھی تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔

افغان حکومت کے مرکزی میڈیا سینٹر کو فعال اور خودمختار بنانے کا فیصلہ ہوا ۔ گزشتہ افغان حکومتوں نے اسے حکومت، عوام اور میڈیا میں فاصلے کم کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا اور اب طالبان حکومت بھی یہی کام کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

 پہلے اس سینٹر کا سربراہ قاری یوسف احمدی کو مقرر گیا تھا جو تقریباً دس سال سے ذبیح اللہ مجاہد کے ساتھ ترجمان کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں لیکن ان کا شخصی تاثر خالص طالبان جنگجو کا سا لگتا ہے اس لیے اس عہدے پر کسی نرم چہرے کی تعیناتی کو ضروری سمجھا گیا ہے اور مرکزی نائب ترجمان انعام اللہ سمنگانی کو اس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔

 ایک افغان صحافی نے اس تبدیلی پر ہلکا پھلکا تبصرہ کچھ یوں کیا کہ طالبان کی پالیسیاں اپنی جگہ لیکن کم از کم اتنا فائدہ ہوا ہے کہ مغربی لباس میں ملبوس مقامی صحافی ادارے کے نئے سربراہ سے مسکرا کر، ہنس کر اور کبھی کبھار قہقہہ لگا کر بھی بات کر سکتے ہیں۔

میڈیا ٹیم کا کام بہتر طور پرکرنے کے لیے ماضی میں طالبان سے تعلق نہ رکھنے والے غیر جانبدار ٹیکنو کریٹ کی خدمات بھی مستعار لی جا رہی ہیں تاکہ وزارت اطلاعات کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلایا جائے۔ ہر محکمے کے لیے علیحدہ ترجمانوں کے تقرر اور ان کی ٹریننگ پر خاصا کام کیا جا رہا ہے تاکہ تمام محکمے عوام اور میڈیا سے رابطے کے معاملے میں خود مختار ہو سکیں۔ 

علاوہ ازیں طالبان حلقوں میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اثر پزیری میں اضافہ ان کی اہم ترجیح ہونا چاہیے تاکہ طالبان حکومت کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے بیانیے کا مؤثر جواب دیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت دیگر ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ حکومت تعلیم یافتہ طبقے میں مقبولیت میں اضافے کے لیے 1996 کی پہلی حکومت کے دوران قائم ہونے والے منفی تاثر کو ختم بھی کرنا چاہتی ہے۔ 

ایک سال کے دوران دو اہم کارناموں کرپشن فری افغانستان اور امن و امان کی بہتر صورتحال کا کریڈٹ طالبان فخر سے لیتے ہیں۔ گو کہ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ تعلیم نسواں کے حوالے سے التوا اور عدم تسلسل کا شکار پالیسیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ پہاڑوں پر رہ کر مسلح جدوجہد کرنے والوں اور مذاکرات کاروں کی سوچ میں فرق اب بھی موجود ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔