بلاگ
Time 26 ستمبر ، 2022

گول میز کانفرنس کریں، مسائل سے چھٹکارا پائیں

اس وقت ملک جن حالات کا سامنا ہے اس میں معیشت کی بدحالی، سیاست میں عدم برداشت، عالمی منظر نامہ پر درپیش چیلنجز سمیت ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جس نے انفراسٹراکچر اور آبادی کو بری متاثر کیا ہوا ہے جس سے باہر نکلنے میں کئی دہائیاں لگیں گی۔

ان تمام مسائل کے حل کیلئے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، ایک لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے ایوان کے اندر اور باہر موجود قیادت کو مل بیٹھنا ہوگا، اس کے لیے ایک گول میز کانفرنس کرنے کی ضرورت ہے۔ 

حکومت کسی بھی جماعت کی ہو ملک سب کا ہے اس کے لیے مل کر مسائل کا حل نکالنا ہے، 75 سال گزر گئے ہم ابھی تک اپنی سمت درست کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

گول میز کانفرنس کو ممکن کیسے بنانا ہے

ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 45 سال کے دوران گول میز کانفرنسز یا مشاورت کو لازمی سمجھا گیا اور ایک قومی لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ 

ضیا الحق نے 1977 میں اس طرح کی ایک کانفرنس بلائی جس میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اکتوبر میں انتخابات کے لیے ایک ضابطہ اخلاق کی تیاری کے سلسلے میں تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو دعوت دی گئی، اس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی نصرت بھٹو نے کی اور اس میں کئی چھوٹی جماعتوں کے لیڈروں کو مدعو کیا گیا جس میں جنرل صاحب کے سامنے ایک سوال اٹھایا کہ انتخابات میں سب کو برابر کے مواقع دیے جائیں۔

— فوٹو: اسکرین گریب
— فوٹو: اسکرین گریب

اس بات پر جنرل صاحب نے اس لیڈر سے کہا کہ آپ کی جماعت کتنے امیدوار میدان میں ہونگیں؟ لیڈر نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ہماری جانب سے کوئی بھی حصہ نہ لے مگر یہ ایک اصولی مؤقف ہے یہ سب کا بنیادی حق ہے، انتخابات تو نہ ہوئے الٹا الیکشن ملتوی کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر تالے لگادیے گئے۔

5 اور 6 مارچ 1988 کو راول پنڈی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں افغانستان کے مسئلے پرگول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

— فوٹو: اسکرین گریب
— فوٹو: اسکرین گریب

کانفرنس میں 19 سیاسی جماعتوں نے شرکت کی چند ایک علاوہ تمام جماعتیں ایوان سے باہر تھیں جنہوں نے ان غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اُس وقت کے وزیراعظم کی دلچسپی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا مسئلہ جو ہر ایک کو اپنے طور پر متاثر کر رہا تھا، تمام لیڈران نے آمادگی ظاہر کردی مگر اس کانفرنس میں شرکت کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ اس میں جنرل ضیا نہیں آئیں گے ان کی یہ شرط مانی گئی۔ 

ایک ایسا مسئلہ جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا اور ایک طرح افغانستان کا مسئلہ آج بھی عالمی منظر پر پہلے کی طرح چھایا ہوا ہے۔

— فوٹو: اسکرین گریب
— فوٹو: اسکرین گریب

گول میز کانفرنس میں نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مصطفیٰ جتوئی، پاکستان نیشنل پارٹی کے میر غوث بخش بزنجو، جمیعت اہلحدیث پروفیسر ساجد میر، جمیعت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نوارانی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (اب جماعت کالعدم قرار دی جا چکی ہے)کے علامہ فاضل موسوی، پاکستان جمہوری پارٹی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ ، مزدور کسان پارٹی کے سربراہ فتحیاب علی خان، جمیعت علمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمان، مسلم لیگ خواجہ خیردین کے خواجہ خیر دین ، جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد، پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو ( اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ محترمہ کا خطاب دیا گیا ) مسلم لیگ قاسم گروپ کے ملک محمد قاسم ، قومی جمہوری پارٹی کے سربراہ سردار شیر باز مزاری، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عبدالرحیم مندوخیل، تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان، مرکزی جمیعت اہلحدیث کے سرپرست اعلیٰ مولانا معین الدین لکھوی، عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل رسول بخش پلیجو، جمیعت علمائے اسلام (درخواستی) کے سیکرٹری سمیع الحق اور قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خان نے شرکت کی جبکہ حکومت کی جانب سے وزیراعظم محمد خان جونیجو، خارجہ امور کے وزیر مملکت زین نورانی ، وفاقی وزرا یاسین وٹو، قاضی عبدالمجید عابد، محمد اسلم خٹک ، چوہدری شجاعت حسین، اقبال احمد خان اور محمد ابراہیم بلوچ نے کانفرنس میں شرکت کی۔

— فوٹو: اسکرین گریب
— فوٹو: اسکرین گریب

اس کانفرنس کا مقصد شرکا کو افغان مسئلے پر ہونے بات چیت اور پیش رفت سے آگاہ کرنا تھا۔ ایک متفقہ سوچ کے ساتھ ان مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔

کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنا اپنا مؤقف کھل کر پیش کیا کانفرنس کے شرکا کی تقریریں ریکارڈ بھی کی گئیں۔ 

کانفرنس میں شریک ایک لیڈر نے اس وقت بتایا تھا کہ اندر گرما گرم بحث ہوئی ایک لیڈر کی تقریر کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ کانفرنس کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچے گی بہر حال یہ کریڈٹ بھی اس وقت کے وزیراعظم کو جاتا ہے جنہوں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بیٹھنے کا مقصد یہی کہ ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھ سکیں اور جان سکیں کہ کس حد تک آگے جانا ہے۔

— فوٹو: اسکرین گریب
— فوٹو: اسکرین گریب

آج سے 34 سال پہلے افغانستان کے مسئلے پر گول میز کانفرنس ہوئی جس کے نتیجے میں جنیوا میں ہونے مذاکرات میں اقوام متحدہ کی جانب سے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمایندے ڈیگو کارڈوویز، افغان وزیر خارجہ اور پاکستان کی جانب سے زین نورانی نے معاہدے پر 14 اپریل 1988 کو دستخط کیے، امریکا اور سوویت یونین نے اس معاہدے کی مشترکہ ضمانت دی۔

معاہدے کے تحت افغان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی جیسے امور شامل تھے۔

محمد خان جونیجو کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے بارے میں جو ہینڈ آؤٹ دیا ہے وہ ہے یہ ایک بہت بڑی چیز ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک فورم پر بیٹھ کر اپنا مؤقف پیش کریں اور سنیں یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔

جولائی 2001 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان صدر پرویز مشرف نے ان مذاکرات سے پہلے تمام مکاتب فکر کے لوگوں جن میں تاجر، علما، سیاسی شخصیات سے ان کی رائے لی گئی تاکہ ایک جامع حکمت علمی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے ۔ ایک مثبت سوچ کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا گیا۔

— فوٹو: اسکرین گریب
— فوٹو: اسکرین گریب

آخری گول میز کانفرنس سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گرد حملے کے بعد ہوئی۔ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے ہولناک اور لرزہ خیز حملہ کر کے کئی طلبہ اور اساتذہ اس کا نشانہ بنایا، اس حملے نے تمام سیاسی قیادت کو ایک میز پر اکٹھا کیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جامع پلان ترتیب دیا گیا، اس اندوہناک سانحہ کی بدولت عمران خان اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا جبکہ سیاسی اور عسکری قیادت نے طویل مشاوت کے بعد بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔

— فوٹو: فائل
— فوٹو: فائل

گول میز کانفرنس ہو یا مشاورت اس کا نتیجہ جو بھی نکلا اس پر عمل ہوا یا نہیں اس میں کس کی کوتاہی ہے اس پر کسی اور وقت پر بات کی جائے گی۔ کسی مسئلے کا حل بات چیت اور مل بیٹھ کر ہی نکالا جا سکتا ہے، ایک میز پر آنا سنجیدہ کوششوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔

ترجیحات کا جائزہ لینا ہوگا

موجودہ صورتحال میں ملک کو اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں مگر ہماری سیاسی قیادت وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ایک دوسرے سے بات کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور اپنا بیانیہ اور چورن بیچنے میں مصروف ہیں، ہر ایک اپنی پٹاری میں اپنے اپنے ایجنڈے لے کر پھر رہا ہے۔ اس میں کچھ ہو یا نہ ہو نقصان ملک کا ہورہا ہے۔ 

ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی سمت درست کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ اس وقت ملک میں ایک عام انتخابات چاہتا ہے اور دوسرا اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کی بات کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس ملک کا ایک بڑا حصہ سیلاب میں گھرا ہوا ہے، متاثرین گھر سے بے گھر ہیں ان کی بحالی کا سوچنے کے بجائے ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔

آئیے ایک میز پر اکٹھے بیٹھیں ملک کو درپیش مسائل سے نکلنے کی راہیں تلاش کریں قوم کو ایک جامع پلان دیں۔ ارد گرد کے حالات کا تقاضہ ہے کہ اپنا نہیں ملک کا سوچیں، ماضی میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں جن کو مقبولیت کا زعم ہے یا واپس آنے کا جنون ہے اس کو یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جو ایک مرتبہ اقتدار سے گیا ہے وہ کبھی فوری واپس نہیں آیا اس کو انتظار فرمائیے کا بورڈ پڑھنا چاہیے اور اچھے وقتوں کا انتظار کرے۔

حکومت کو پہل کرنی چاہیے بات چیت کی راہ ہموار کرے کچھ دو اور کچھ لو، اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی طرح جو ایوان میں ہیں اس سے مشاورت نہ کی جائے بلکہ ایوان سے باہر بھی مشاورت کی جائے اور ان کی بھی سنی جائے اور ایک قومی لائحہ عمل بنا کر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔

ہمارے ہاں قوم پر فیصلے مسلط کیے جاتے رہے ہیں اکثریت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، ان کو احساس دلائیں کہ یہ ملک ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ ایوان میں بیٹھے لوگوں کا۔ ہماری اولین ترجیح بے گھر افراد کی بحالی ہونی چاہیے آبادی ایک بڑا حصہ امداد کا منتظر ہے، ہمیں اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔