Time 27 ستمبر ، 2022
سائنس و ٹیکنالوجی

اسمارٹ فونز کی وجہ سے آپ کو ہر وقت جاسوسی کا خطرہ رہتا ہے

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

جاسوسی کے لیے آوازیں سننے والی کچھ ڈیوائسز استعمال کی جاتی ہیں لیکن ہمیں سب سے زیادہ جس چیز سے خطرہ ہے وہ ہمارے اپنے ہی سمارٹ فونز ہیں جنہیں بنا چھوئے ہی ہیک کیا جا سکتا ہے اور انہیں بطور ریکارڈنگ ڈیوائس استعمال کیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ واٹس ایپ جیسی محفوظ ایپس کے معاملے میں بھی۔

وزیراعظم ہاؤس سے لیک ہونے والی آڈیو ٹیپس کے اسکینڈل کی وجہ سے کئی لوگ بشمول انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی حیران ہیں۔ ایجنسیاں اس وقت یہ پتہ لگا رہی ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں جاسوسی کے آلات کیسے نصب کیے گئے۔ وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم آفس کی باقاعدگی کے ساتھ تلاشی لی جاتی ہے کہ کہیں کوئی جاسوس ڈیوائس تو نصب نہیں کی گئی لیکن وزیراعظم، وزیراعظم آفس کے اسٹاف اور دیگر کے موبائل فونز کو جاسوس ڈیوائسز سے پاک کرنے کے حوالے سے کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔

انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذرائع نے دی نیوز کو جاسوسی کے مختلف طریقوں سے آگاہ کیا لیکن آج کے دور میں سب سے خطرناک صورتحال سمارٹ فونز کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے جو تقریباً سب ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔

غیر محسوس انداز سے ہمارے سمارٹ فونز، ٹیبلیٹس حتیٰ کہ لیپ ٹاپس کو ریکارڈنگ ڈیوائس میں تبدیل کیا جاسکتا ہے چاہے یہ ڈیوائسز بند ہی کیوں نہ ہوں، یا پھر یہ انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی کیوں نہ ہوں۔ عام فون کالز یا موبائل کالز کو محفوظ نہیں سمجھا جاتا لیکن جو بات چونکا دینے والی ہے وہ یہ ہے کہ اب واٹس ایپ جیسی ایپلی کیشنز بھی ریکارڈنگ کیلئے استعمال کی جا سکتی ہیں جس کیلئے سمارٹ فون میں ایک فائل کے ذریعے خفیہ سافٹ ویئر انسٹال کرنا ہوتا ہے اور یہ کام اکثر موبائل فون صارف کے علم میں لائے بغیر ہی ہو جاتا ہے۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریباً پانچ طرح کی جاسوس ڈیوائس (لسننگ ڈیوائس) دنیا میں موجود ہیں۔ چھپائے جانے والے ٹرانسمیٹرز مخصوص کمرے میں نصب کر دیے جاتے ہیں جس کے بعد بات چیت کی نگرانی کی جاتی ہے۔ خفیہ جاسوسی کیلئے، یہ ٹرانسمیٹرز کسی چیز جیسا کہ گھڑی، کیلکیولیٹر، ایش ٹرے، میز کے نیچے وغیرہ نصب کیے جاتے ہیں۔

یہ ٹرانسمیٹرز ریمورٹ سے بھی چل سکتے ہیں، ان میں ریکارڈنگ کے فیچرز بھی ہوتے ہیں اور انکرپشن بھی۔ ایسی لسننگ ڈیوائسز بھی ہوتی ہیں جو پاور لائنز کے ذریعے پاور حاصل کرکے مستقل جاسوسی کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔ انہیں ایسی جگہوں پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تک رسائی مشکل ہو۔ ایک اور جاسوسی کا نظام ہے جسے فکسڈ آپریشن کہا جاتا ہے جو دشمن اہداف کیخلاف مستقل بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ ڈیوائس کسی مخصوص جگہ پر نصب کر دی جاتی ہے۔ ایک اور لیزر ٹیکنالوجی بھی ہے جسے جاسوسی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کمرے کی جاسوسی کرنا ہو وہاں شیشے کی کھڑکی کے ذریعے لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے آوازیں سنی جاتی ہیں۔ لیکن پردے وغیرہ کی رکاوٹ سے یہ سسٹم ناکارہ ہو جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق سمارٹ فونز کو اس انداز سے پروگرام کیا جا سکتا ہے کہ یہ وائبریٹ نہ کریں، ان کی گھنٹی نہ بجے یا پھر کوئی علامت ظاہر نہ ہو جس سے یہ پتہ لگے کہ ان پر کال کی جا رہی ہے۔

اس کے بعد انہیں خود کار انداز سے کال اٹینڈ کرنے کیلئے پروگرام کیا جاتا ہے تاکہ کمرے میں ہونے والی بات چیت سنی جا سکے۔ بات چیت سننے کیلئے کوئی سازشی شخص فون کو کسی مخصوص جگہ پر چھوڑ سکتا ہے یا پھر کسی کو غیر قانونی طور پر ٹیکسٹ کے ساتھ ای میل بھیج سکتا ہے جو کھولے جانے کی صورت میں ٹارگٹ فون پر ضروری سافٹ ویئر ڈاؤن لوڈ کر دے گا۔ اس کے بعد ہیکر دنیا کے کسی بھی حصے سے اس فون کو کنٹرول کرکے کسی دوسرے فون سے کمرے میں ہونے والی بات چیت سن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، کمپیوٹر ورلڈ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نئی سمارٹ فون ایپس آپ کے فون کا مائیکرو فون اور کیمرا استعمال کرکے آپ کا ڈیٹا حاصل کر رہی ہیں۔ یہ ایپس آپ کے فون کا مائیکرو فون استعمال کرکے بات چیت سننے کا کام کر رہی ہیں۔ احتیاطاً، کہا جاتا ہے کہ سمارٹ فون صارفین ڈاؤن لوڈنگ کرتے وقت دھیان رکھا کریں۔

وائی فائی کنکشن کے معاملے میں بھی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ غیر محفوظ نیٹ ورکس سے کنیکٹ ہونے کی وجہ سے کوئی اور یہ دیکھ پائے گا کہ ہم اپنے فون پر کیا کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب سمارٹ فون پر جی ایس ایم فیچر غیر فعال ہوتا ہے تو اس کے باوجود فون میں موجود کیمرے کو جاسوسی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سمارٹ فونز کو ویڈیو ریکارڈ کرنے اور فوٹوز کھینچنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور باتیں سننے کیلئے بھی۔ چونکہ ایسا ممکن نہیں کہ بغیر کیمرے والی موبائل فون ڈیوائس خریدی جائے، اس لیے ایسا خطرہ ہر وقت موجود ہے جسے نظر انداز کرنا نہیں چاہیے۔

مزید خبریں :