جیو فیکٹ چیک : صحافی کے قتل کا سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں

یہ الزام سب سے پہلے 25 ستمبر کو سوشل میڈیا پر پھیلنا شروع ہوا

جیو فیکٹ چیک کو اس دعوے کی تائید میں کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پنجاب میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر صحافی کو قتل کیا گیا۔

دعویٰ

یہ الزام سب سے پہلے 25 ستمبر کو سوشل میڈیا پر پھیلنا شروع ہوا، متعدد ٹوئٹر صارفین کے مطابق، ایک رپورٹر، عبداللہ نظامی اور ان کی اہلیہ ثمینہ رمضان کو 24 ستمبر کو لیہ پنجاب میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

بہت سارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ صحافی کو عمران خان کی بہن عظمیٰ بخاری کی سیکڑوں ایکڑ اراضی پر مبینہ طور پر غیر قانونی قبضے کی خبر بریک کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔

سوشل میڈیا پوسٹس جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحافی کو پنجاب میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر قتل کر دیا گیا/اسکرین شاٹ
سوشل میڈیا پوسٹس جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحافی کو پنجاب میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر قتل کر دیا گیا/اسکرین شاٹ

کچھ اکاؤنٹس نے تو یہاں تک کہا کہ رپورٹر کو نیازی خاندان کی کرپشن چھپانے کے لیے قتل کیا گیا جبکہ دیگر نے سپریم کورٹ سے قتل کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

سوشل میڈیا پوسٹس جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحافی کو پنجاب میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر قتل کر دیا گیا/اسکرین شاٹ
سوشل میڈیا پوسٹس جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحافی کو پنجاب میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر قتل کر دیا گیا/اسکرین شاٹ

حقیقت

جیو فیکٹ چیک کو موصول ہونے والی ایف آئی آر میں یہ بتایا گیا ہے کہ نظامی اور ان کی اہلیہ کو ان کے بہنوئی محمد عامر نے گولی مار کر قتل کیا، اس میں سابق وزیراعظم یا ان کی بہن کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق عامر اپنی بہن کی نظامی سے اپنی مرضی سے شادی کرنے کے خلاف تھا۔

24 ستمبر کی سہ پہر یہ جوڑا گاڑی چلا کر ملتان جا رہا تھا کہ عامر نے پستول نکال کر اپنے بہنوئی اور بہن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

جیو فیکٹ چیک نے رپورٹر کے بھائی عباس نظامی سے بھی رابطہ کیا، انہوں نے پولیس شکایت کی تصدیق کی۔ 

بھائی نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ عبداللہ نظامی اور ثمینہ رمضان نے 2018 میں کورٹ میرج کی تھی۔

نظامی کا کہنا ہے کہ ، "ہاں جی! مین ایشو تھا نا، بھائی نے دوسری شادی کی ہوئی تھی،۔ 2018  میں ان کا نکاح ہوا تھا،  ابھی ایک سال پہلے وہ ادھر اپنے گھر لے آئے تھے، کورٹ میرج تھی لیکن ان کے  سسرال سے  ان کی  صلح بھی ہو گئی تھی بعد میں اور  جس نے فائرنگ کی ہے، یہ ان کا سالا ہے،  اس کے ذہن میں تھا کچھ، حالانکہ یہ وہاں آتا جاتا بھی تھا، بھائی کے ساتھ سفر بھی کرتا تھا پہلے بھی،  تو اس دن بھی یہ ملتان جا رہے تھے۔ بھابھی بھی ساتھ تھیں ان کے،  یہ شاید پہلے سے سنبھلا ہوا تھا، اس کے ذہن میں کچھ اور تھا، بدلہ لینا تھا اس نے،  اسی گاڑی میں موجود تھا ، بھائی کے ساتھ یہ وہیں اس نے پھر وہ فائرنگ کی۔ "

نظامی نے مزید کہا کہ " یہ خبر ہم نے بھی سوشل میڈیا پر پڑھی تو ہے کہ وہ خبر کی وجہ سے کچھ ہوا ہے، لیکن کوئی صداقت لگتی نہیں اس میں۔ "

جیو فیکٹ چیک کو کسی ایسے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں ملا ، جو سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو اس قتل سے جوڑتا ہو۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق 1992 سے 2022 کے درمیان پاکستان میں 96 صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو قتل کیا گیا۔

نوٹ: ہمیں @GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگر آپ کو بھی کسی غلطی کا پتہ چلے تو ہم سے [email protected] پر رابطہ کریں۔