02 اکتوبر ، 2022
امریکی رجیم چینج کی ”سازش“ کا بھانڈا بیچ چوراہے کیا پھوٹا کہ ہائبرڈ نظام کی سڑاند سے سیاسی تعفن ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ اب کس کس بات پر سر دھنیں یا پیٹیں؟ سر تو صرف ہائبرڈ جعلی سویلین نظام کے دھڑن تختہ پہ دھنا جاسکتا ہے۔ آڈیو لیکس کیا ہوئیں، گمراہ کن بیانیوں سے ہوا نکل گئی۔ ابھی تو ”ریاست مدینہ“ ثانی کے اخلاقی جنازے کے لیے ہوش ربا ویڈیوز کا انتظار ہے۔
فقط عوام کے حق جانکاری کے لیے کہ کیسے تماشبین اپنا اپنا جادو جگانے کے لیے معصوم مداحین کو کیسے کیسے منتروں سے گمراہ کرتے ہیں۔ جس سازشی بیانیے پر تعریفی ڈونگرے برسائے جارہے تھے وہ ایک ایسی بیہودہ جعل سازی تھی جس کی لیکس کے بعد کسی ثبوت یا دلیل کی زحمت نہ رہی۔ لاڈلے کے تن پہ ستر چھپانے کو کوئی چیتھڑا بھی نہ بچا۔ البتہ سر اس پر ضرور پیٹا جائے گا کہ وزیراعظم ہاؤس یا آفس کی جاسوسی کا ”قومی فریضہ“ کونسا ”قومی ادارہ“ انجام دے رہا تھا؟
جانے سب ”اندر کی خبر“ لانے والوں کو چپ کا روزہ کس نے رکھوایا ہے یا یہ محض عادتاً سیلف سنسر شپ کا مظہر ہے؟ اب سابق وزیراعظم عمران خان کے اس جائز مطالبے کہ وزیراعظم کی جاسوسی کون کررہا تھا کی حمایت بنا چارہ نہیں لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ ایک پروگرام میں عمران خان سربراہ حکومت کی جاسوسی کو ہر اعتبار سے جائز قرار دیتے نظر آئے۔ بہر کیف یوٹرنز پہ یوٹرنز پہ کیا سنجیدہ رائے دی جاسکتی ہے۔ اب اگر ہر دو متحارب اطراف سائفر یا ملاقات کی روداد (Minutes) بارے تحقیقات پر مصر ہیں تو اس میں دیر کیسی۔ اگر وزیراعظم کا دفتر محفوظ نہیں تو پھر کیا محفوظ ہے؟ جس کسی ایجنسی کا یہ سب کیا دھر اہے، اسکا مینڈیٹ کیا ہے؟ وہ کس کے سامنے جوابدہ ہے؟ وہ ریاست کے اندر ریاست کیوں بنی؟ اسے احتساب اور نگرانی کے کسی آئینی و پارلیمانی دائرے میں کیسے لایا جائے۔
ملک کا منظر یکا یک بدل رہا ہے اور ایسا ان بے آس آنکھوں نے کئی بار دیکھا ہے۔ کس طرح ایک انتہائی پاپولر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک اتحاد بنوایا گیا اور انہیں عدالتی اعانت سے تختہ دار پہ لٹکادیا گیا۔ کس طرح جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت غیر سیاسی انتخابات میں جنرل ضیا الحق نے اپنی مسلم لیگ بنائی جس طرح ایوب خان نے بنائی تھی۔ اور پھر کس طرح چار منتخب حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔ دو بار کی منتخب وزیراعظم بینظیر بھٹو کو سرعام (NRO کے باوجود) قتل کروادیا گیا اور دوسرے وزیراعظم نواز شریف کو جلا وطن اور تیسری بار منتخب ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے ذریعہ احتساب کی سولی پہ چڑھا دیا گیا۔ جو دو بڑی جماعتیں میدان میں تھیں، ان پر گند اچھلوا کر ایک لاڈلے کھلاڑی کو آسمان پہ چڑھایا گیا، جس کا انجام اور نواز شریف کی واپسی کے امکانات اب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
کیسی بلندی، کیسی پستی جو پیا من چاہے۔ اس ساری شعبدہ بازی میں جنازہ نکلا بھی ہے تو آمرانہ مقتدرہ مخالف جمہوری بیانیے کا۔ سویلین بالادستی کا خواب خواب ہی رہا۔ وہ پی ڈی ایم کا 26 نکاتی ایجنڈا بھی لگتا ہے سائفر کی طرح چوری ہوگیا ہے۔ گم گشتہ میثاق جمہوریت تو کہیں تاریخ کے صفحات میں گم ہوگیا۔اب جو اینٹی شریف کلائمیکس کا اینٹی کلائمیکس ہوا ہے، وہ محض مکافات عمل نہیں وہی پرانا ہائبرڈ کھیل ہے جس کے کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں، ایمپائر وہی رہتے ہیں۔
بہر کیف میاں نواز شریف اور ان کی بہادر بیٹی مریم نواز کے ساتھ جو ظلم کیا گیا وہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہ رہ پایا۔ اب توپوں کا رخ لاڈلے کی جانب ہے جس کی قلابازیاں اس کے لیے کافی ہوں گی۔ قومی سلامتی اور قومی آزادی کو بچاتے بچاتے اس نے ملک کو ذاتی آمریت کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی کیا کسر تھی جو نہ چھوڑی۔ اصل سوال ہے کہ اس جعلی سیاسی ہائبرڈ نظام سے ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے باعث نہ کوئی مستقل آئینی بندوبست چل پارہا ہے، نہ ادارے اپنے آئینی فرائض پورے کررہے ہیں اور نہ عوامی نمائندگی کا کوئی جاندار نظام پنپ رہا ہے۔ ناکام ریاست اسی کا نام ہے۔
دریں اثناسیلاب کی تباہ کاریوں سے عالمی برادری پاکستان کی حالت زار پہ متوجہ ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت، خاص طور پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو، وزیر ماحولیات شیری رحمن اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بہت عمدگی سے ماحولیاتی انصاف کا کیس دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس سے ایک طرف قرضوں کی واپسی میں رعایات کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی شرائط میں نرمی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ آزاد منڈی کے محافظ جو بھی کہتے رہے ہیں، اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بنتے ہی ڈالر بھی نیچے آرہا ہے اور تیل و گیس کی قیمتیں بھی کم ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
آزاد منڈی کے گھپلوں سے ڈار صاحب سے زیادہ کون واقف ہوگا، لہٰذا غیر ملکی زر مبادلہ کی منڈی میں جاری سٹے بازی پہ روک لگنی شروع ہوگئی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی اب بعد از سیلاب تباہی کے باعث سخت شرائط میں نرمی پہ راضی ہوتے لگتے ہیں اور قرضوں کی ادائیگی میں التوا کی شروعات امریکہ نے کردی ہے، جس سے لگتا ہے کہ ”دیرینہ تعلقات“ کی قوالی پھر سے شروع ہوگئی ہے۔ میں نے ایک ذاتی پیغام میں ڈار صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ نجی بینکوں کے فارن کرنسی اکاؤنٹس کو روپے میں بدل کر پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز میں ڈال دیں اور 5000 روپے کے کرنسی نوٹ کو ختم یعنی Demonetize کردیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سپلائی چین کے بحران پہ قابو پانے کے لیے بھارت سمیت ہمسائیوں سے تجارت کھول دیں، تمام لگژری گڈز کی درآمدات کو WTOکے ضابطوں سے بچتے ہوئے ناممکن بنادیں، غیر پیداواری ریاستی و سلامتی کے اخراجات پر مناسب کٹ لگائیں۔
یہ جو اسٹیٹ بینک کو مادرپدر آزاد کیا گیاہے اور حکومت کو نجی بینکوں کی جعلی نفع خوری کا شکار کیا گیا ہے، اس کا ازالہ کیا جائے۔ چونکہ محنت کشوں اور متوسط طبقوں کی قوت خرید سو فیصد تک کم ہوگئی ہے تو کم از کم اجرت 35 ہزار روپے اور مڈل کلاس تک کے طبقات کو ایندھن و خوراک و صحت پر امدادی رقم کا بندوبست کیا جائے جو BISP کے ذریعہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری کرم خوردہ، کرایہ خور دست نگر معیشت کا بحران لاینحل ہے، جب تک اُمرا کا قبضہ ختم نہ کیا جائے اور معیشت کو ٹھوس پیداواری بنیادوں اور تعلیم کو سائنسی بنیادوں پر آگے نہ بڑھایا جائے اور یہ بھی تبھی ممکن ہے کہ ہماری ریاست عوامی سلامتی کی جمہوریہ بنے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔