09 اکتوبر ، 2022
دنیا بھر میں اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔
کراچی پریس کلب کی جانب سے بھی برسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں لیاقت نیشنل اسپتال کی پروفیسر ڈاکٹر نائلہ زاہد اور ان کے ہمراہ چیئرمین میڈیکل انکولوجی ڈاکٹر عدنان عبدالجبار نے شرکت کی۔
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نائلہ زاہد کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں خواتین میں چھاتی کا سرطان زیادہ دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضروری نہیں سرطان صرف ایک چھاتی میں ہو بلکہ دونوں میں بھی ہوسکتا ہے جبکہ سرطان حمل کے دوران بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین میں شعور کی بہت کمی ہے، حاملہ خاتون حمل کے دوران بھی چھاتی کے سطان کا علاج کروا سکتیں ہیں لیکن وہ بچہ پیدا کرنے کے بعد علاج کیلئے آتی ہیں، بہت تاخیر سے آنے کی وجہ سے سرطان کا علاج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر نائلہ نے کینسر ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ سگریٹ پینے والی خواتین کینسر کے نشانے پر ہوتی ہیں جبکہ چکن اور چکنائی کا زیادہ استعمال بھی کینسر ہونے کی وجہ بن سکتا ہے اس کے علاوہ جو مائیں بچوں کو دودھ نہیں پلاتی وہ بھی چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے کہاں کہ چھاتی کے سرطان کی 6 مختلف اقسام ہے اور ہر مریض کے کینسر کی قسم کو دیکھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے، کینسر کی تشخیص کے لیے میموگرافی پہلا عمل ہے اور پھر مرحلہ وار دیگر ضروری ٹیسٹ کیے جاتے ہی۔
پروفیسر لیاقت نیشنل اسپتال کا کہنا تھا کہ کینسر کے اسٹیج 4 کے مریضوں کے صحتیاب ہونے کے امکانات بہت معدوم ہوتے ہیں تاہم اب جدید ٹیکنالوجی سے علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے 4 ماہ زندہ رہنے والا مریض سال دو سال تک زندگی گزار لیتا ہے۔
چیئرمین میڈیکل انکولوجی ڈاکٹر عدنان عبدالجبار نے شرکا کو آگاہی فراہم کرتے ہوئے کہا کہ چھاتی کا سرطان صرف خواتین میں نہیں مردوں میں بھی ہوتا ہے لیکن مردوں میں اس کی تعداد بہت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے کینسر کے مریضوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے قومی سطح پر نیشنل کینسر رجسٹری بنائی ہی نہیں گئی اس لیے پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے مستند تناسب کا کچھ پتا ہی نہیں ہے البتہ ایک اندازے کے مطابق ہر 8 میں سے ایک خاتون چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روحانی اور ہومیوپیتھی سے کینسر کا علاج ممکن نہیں ہے جبکہ میموگرافی کروانے کی شرح 5 فیصد ہے اور بڑھتی عمر کے ساتھ کینسر کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر عدنان نے مزید کہا کہ کیمو سے گٹھلی ختم ہو جاتی ہے لیکن آپریشن نہ کروانا ایک غلطی ہے، کینسر کے علاج کروا لینے کے بعد بھی معمول کے مطابق چیک اپ کروانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ کینسر دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام میں ایک غلط فہمی ہے کہ بایوپسی کروانے سے کینسر پھیل جاتا ہے جو بلکل غلط ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ 20 سال کے بعد ہر لڑکی کو ہر ماہ اپنا معائنہ خود کرنا چاہیے اور معائنہ کرنے کا بہترین وقت ماہواری کے بعد کا ہے، معائنہ کرنے سے کینسر کا ابتدائی اسٹیج میں پتا چل جاتا ہے اور بروقت علاج کر کے زیادہ زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔