13 اکتوبر ، 2022
’’ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون زیتون بی بی کو سپریم کورٹ نے 46 سال بعد وراثتی جائیداد میں حصہ دار قرار دے دیا۔‘‘ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، سپریم کورٹ نے خاتون کے بھائیوں کی اپیل خارج کر دی۔
دورانِ سماعت عدالت نے سوال اُٹھایا کہ کیا بھائیوں نے کبھی بہنوں کو وراثتی جائیداد گفٹ کی، ہر بار بہن ہی بھائیوں کو کیوں اپنا وراثتی حق گفٹ کرتی ہے؟ اگرچہ خبر میں کیس کی تفصیل کچھ زیادہ نہ تھی لیکن پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ خاتون جب کمسن تھی تو اُس وقت اُن سے اُن کے بھائیوں نے وراثتی جائیداد اپنے حق میں گفٹ کروا لی تھی۔
عدالت کا اعتراض یہ تھا کم عمر بہن بھائیوں کو وراثت میں ملنے والی اپنی جائیداد کیسے گفٹ کر سکتی ہے۔ ویسے عموماً بہنیں جو بیشک کمسن نہ بھی ہوں اُن سے بھی چالاک بھائی اپنے حق میں اُن کا وراثتی حصہ گفٹ کروا لیتےہیں، اگر کوئی پیار سے نہ مانے تو پھر ناراضی اور کچھ سختی بھی کرلیتے ہیں۔
بہرحال اس خبر کی اہمیت یہ تھی کہ46 سال کی تگ و دو اور عدالتی جنگ کے بعد یہ فیصلہ ہو گیا کہ خاتون وراثت کی حق دار ہے۔ اب کب اس خاتون کو اپنا حق ملے گا، اس کے لیے شاید ابھی ایک اور قانونی جنگ اُن کو لڑنا پڑے گی جو نجانے کتنے سال چلے گی۔ تاہم میں نے جب یہ خبر پڑھی تو سوچا یہ خاتون پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ اُن کے حق میں 46 سال کی قانونی اور عدالتی جنگ کے بعد ہی سہی کم از کم یہ فیصلہ تو ہوگیا کہ وہ اپنے مرحوم والد کی جائیداد میں حق دار ہیں۔
یہاں تو ہماری عدالتوں میں نسلوں تک کیس چلتے ہیں اور فیصلے ہی نہیں ہوتے۔اچھا ہوتا کہ اس کیس کو سپریم کورٹ ایک کیس اسٹڈی بنا دیتی تاکہ اس ملک کی لاکھوں، کروڑوں ، بہنیں اور بیٹیاں جن کو وراثت کے اُس حق سے محروم رکھا جاتا ہے جس کا حکم اسلام نے دیا اور جس کا ہمارا آئین اور قانون وعدہ کرتا ہے، اُنہیں اُن کا حق دلوایا جاسکے۔
ہمارا سسٹم اور ہماری سوچ خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کے خلاف ہے جس کا اظہار سپریم کورٹ نے بھی یہ کہہ کر کیا کہ بہن ہی بھائیوں کو وراثت میں اپنا حصہ کیوں گفٹ کرتی ہے؟ اچھا ہوتا کہ سپریم کورٹ اس ایک کیس کو لے کر پورے نظام میں موجود اُن خرابیوں اور رکاوٹوں کو دور کرنے کی بھی کوئی تدبیر کر دیتی جو خواتین کو اُن کے حق سے محروم کرتی ہیں۔ اچھا ہوتا اگر سپریم کورٹ اُن مشکلات کا بھی احاطہ کرتی جن کی وجہ سے خواتین کو اپنا حق لینے میں ناکامی ہوتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ خود سے بھی یہ سوال پوچھے کہ آخر ہمارے ہاں ایسے مقدما ت کئی کئی برس بلکہ دہائیوں تک عدالتوں میں کیوں چلتے رہتے ہیں اور کوئی فیصلہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ ساری خرابی ہمارے نظام کی خرابی سے پیدا ہوئی۔ ورنہ جب اسلام خواتین کو وراثت میں حصہ دیتا ہے، ہمارا آئین اور قانون بھی یہی کہتا ہے تو پھر نظام کیوں اُس سوچ کا یرغمال بناہوا ہے جو بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کے خلاف ہے۔سپریم کورٹ کو تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پابند بنانا چاہیے کہ ایک ماہ کے اندر اندر ایسا نظام وضع کریں کہ آئندہ سپریم کورٹ میں کسی دوسری زیتون بی بی کو وراثت میں اپنے حصے کے حصول کے لیے نہ آنا پڑے۔
کوئی فرد فوت ہو جائے تو اُس کے ورثا کا فوری تعین کر کے جائیداد کی تقسیم کی قانونی کارروائی مکمل کی جائے۔ اس سلسلے میں یونین کونسل، تحصیل اور ضلعی سطح پر حکومتی مشینری کے ذریعے خواتین کی طرف سے شکایات کے فوری ازالے کا بھی میکانزم بنایا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات بہت خراب ہیں ۔
ہم اسلام کا نام تو لیتے ہیں لیکن وراثت کے متعلق اسلامی احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ آزادی اور حقوق نسواں کے نام پر یہاں نجانے کیا کیا کچھ ہو رہا ہے لیکن عورت کو وراثت میں حق کیسے دلوایا جائے، اس موضوع پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جہاں میڈیا، سیاستدان ، عدلیہ، پارلیمنٹ وغیرہ سب اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے وہاں علمائے کرام بھی معاشرے کی اُس سوچ کہـ’’ وراثت پر حق صرف مرد کاـ‘‘ کو نہیں بدل سکے۔سب مل کر اس سوچ کو اور اس سوچ کا تحفظ کرنے والے نظام کوبدلیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔