18 اکتوبر ، 2022
امریکا کے منصب صدارت پر متمکن 80 سالہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق ایک متنازعہ بیان دے کر ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔جو احباب پاک امریکا تعلقات کی تاریخ سے واقف ہیں ان کے لیے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔
1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان نے روس کے بجائے امریکا کا انتخاب کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے روس کے بجائے امریکا کا دورہ کرکے واضح طور پر امریکی اتحادی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن پاک امریکا تعلقات کی تاریخ دھوپ چھاؤں کی مانند ہی رہی۔ کبھی پاکستان امریکی توقعات پر پورا نہ اترا تو کبھی امریکا نے پاکستان کی امیدوں کے برعکس اقدامات کئے۔تاہم پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں امریکا واحد ملک ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے سیاسی اور دفاعی معاملات میں شریک کار رہا۔
1954 سے لیکر اب تک مختلف مواقع پر امریکا نے پاکستان کو امداد فراہم کی۔ایک زمانہ وہ تھا کہ جب گندم بھی امریکا سے آتی تھی اور گندم اٹھانے والے اونٹوں کے گلے میں’’تھینک یو امریکا ‘‘کا ٹیگ لگا ہوتا تھا۔امریکا کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکا نے اس گندم کے پیسے ڈالر کے بجائے روپوں میں وصول کرنے کی سہولت دی اور ساتھ ہی یہ بھی پیش کش کر دی کہ وہ یہ رقم امریکا کو ادا کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں۔
19 میں 1954 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہوا۔1954 سے 1964 تک امریکا کی جانب سے پاکستان کو 70کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔1980 کی دہائی پاک امریکا تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی دہائی کہلائی جا سکتی ہے۔1979میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لیا۔ابتدا میں صدرجمی کارٹر نے پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی جسے پاکستان نے ’’مونگ پھلی‘‘کہہ کر مسترد کر دیا۔1981 میں صدر ریگن نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش کی جسے قبول کر لیا گیا۔
1980 سے 1990 کے درمیان امریکا نے پاکستان کو 2 اعشاریہ 19 ارب ڈالر کی فوجی معاونت فراہم کی جبکہ معاشی ترقی کے لیے 3 اعشاریہ 1 ارب ڈالر بھی فراہم کیے۔اس دور میں مسلح افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔امریکا نے پاکستان کو 40 ایف 16 طیاروں سمیت جدید ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ بھی مہیا کی۔اس وقت کے صدر پاکستان، جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکی عزائم کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے عملدرآمد شروع کیا۔مختلف حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی حکمران جماعت نے سمجھوتا نہ کیا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کا منصوبہ تھا جسے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھا۔یہاں تک کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 28 مئی 1998کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا۔اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے دھماکے رکوانے کے لئے میاں نوازشریف کو متعدد فون کئے۔ان پر دباؤ ڈالا۔مبینہ طور پر رقم دینے کی بھی پیشکش کی۔تاہم انہوں نے پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق ایٹمی دھماکے کردیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ امریکا کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ہر امریکی حکمران اس حوالے سے مختلف نوعیت کے بیانات دے کر اپنے خبث باطن کا اظہارکرتا رہتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔پاکستان کی سیاسی قیادت نے بجا طور پر امریکی صدر کے بیان کو مسترد کیا ہےاور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بجا طور پر یہ کہا گیا کہ اگر ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کی بات کرنی ہے تو اس کا سب سے پہلا نشانہ تو بھارت ہونا چاہیے جس کے میزائل پاکستان میں آکر گرے جب کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے اس کے انتظامات کو عالمی معیار کے عین مطابق قرار دیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر کا بیان ان کے اس ذہنی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جس سے وہ دوچار ہیں۔ ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کے استقبالیے میں امریکا کے صدر جو بائیڈن کا خطاب وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ جس میں بائیڈن کے حوالے سے لکھا گیا کہ’’ میرے نزدیک شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک، پاکستان ہے۔ اس کے پاس موجود جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘''امریکی صدر کے یہ الفاظ بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظرنامے کوذہن میں رکھ کر ادا کیے گئے۔
روس یوکرائن جنگ کے دوران روس کی مسلسل بالادستی اور چین کی عالمی سفارتکاری نے امریکی صدر کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔عالمی منظر نامے پر امریکا کے کئی پرانے اتحادی اسے چھوڑ رہے ہیں۔کئی نئے بلاک امریکی طاقت کو چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔روس یوکرین تنازعات کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان سمیت متعدد ممالک کے غیر جانبدار رویے نے بھی امریکی صدر کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی بہترین پروفیشنل افواج میں شمار ہوتی ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی،توازن اور سمجھ داری کے ساتھ چلائی جا رہی ہے۔بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دفتر خارجہ پر کی گئی تنقید بلا جواز معلوم ہوتی ہے کیونکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔اس بیان کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہوکر ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیااور امریکی صدر کے بیان کو نہ صرف غیر ضروری قرار دیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں صدر بائیڈن سے کئی سوالات پوچھے جبکہ صف اول کے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مثبت اور ذمہ دارانہ بیانات انکے ذمہ دار فرد ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ آنے والے دنوں میں نئی عالمی صف بندی کی جائے گی جس کیلئے نئے کردار کے تعین کیلئے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا تاکہ ایسی پالیسی ترتیب دی جا سکے جو بدلتے ہوئے عالمی تقاضوں کے مطابق پاکستانی مفادات کا تحفظ کر سکے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔