25 اکتوبر ، 2022
کامران ٹیسوری کے گورنر سندھ بنائے جانے پر چہ میگوئیوں کا سلسلہ کئی روز سے جاری ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان ،جو بذات خود بے ایمانی اور بددیانتی کے الزامات ثابت ہونے پر نااہل ہوچکے ہیں ، نے کامران ٹیسوری کو ’مولاجٹ‘قرار دیکر اس بحث کو ایک نیا رُخ دیدیا۔
شاید عمران خان کو معلوم نہیں کہ ’مولاجٹ‘اور ’نوری نت‘ کی تمثیل حقیقت میں کن تاریخی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔فروری 1979ء میں فلم ساز سرور بھٹی اور مصنف ناصر ادیب کی فلم ’’مولا جٹ ‘‘ریلیز ہوئی تو کچھ عرصہ بعد نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی بلکہ مارشل لا حکام نے اس فلم پر بھی پابندی لگادی۔ سرور بھٹی واضح کرچکے ہیں کہ اس فلم میں مولا جٹ کا کردار دراصل بھٹو سے منسوب تھا جبکہ ضیاالحق کو نوری نت کے روپ میں پیش کیا گیا۔
بہر حال جب کامران ٹیسوری کو ’مولاجٹ‘قرار دیا گیا تو مجھے تجسس ہوا کہ اس سیاسی فلم کا ولن یعنی ’نوری نت‘ کون ہے؟جواب ڈھونڈنے کیلئے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی سمیت دیگر رہنمائوں اور متعلقہ شخصیات سے ملاقات ہوئی تو پوری کہانی اور سب کرداروں سے شناسائی ہوگئی ۔جب ایم کیو ایم پاکستان نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد سے پہلے پی ڈی ایم میں شمولیت اختیار کی تو وفاقی حکومت میں وزارتوں کے علاوہ گورنر سندھ کا عہدہ بھی ایم کیو ایم کو دینے کا وعدہ کیا گیا۔
گورنرعمران اسماعیل کے مستعفی ہو جانے کے بعد ایم کیوایم کی طرف سے اس منصب پر تعیناتی کے لئے پانچ ناموں پر مشتمل فہرست موجودہ حکومت کو بھیجی گئی۔
اس میں نسرین جلیل سرفہرست تھیں جبکہ بالترتیب عامر خان،وسیم اختر ،کشور زہرہ اور عامر چشتی کے نام شامل تھے ۔18اپریل کو عمران اسماعیل کا استعفیٰ منظور ہوا مگر 9 اکتوبر تک یعنی تقریباً6ماہ گورنر کا عہدہ خالی رہا کیونکہ ایم کیو ایم کی طرف سے جو نام بھیجے گئے ان پر کسی نہ کسی حوالے سے اعتراضات سامنے آرہے تھے۔
مثال کے طور پر نسرین جلیل صاحبہ کی طرف سے مبینہ طور پر بھارتی ہائی کمشنر کو لکھا گیا خط رکاوٹ بن گیا۔عامر خان پر دہشت گردی،قتل اور اغوا جیسی وارداتوں میں ملوث ہونے کے بیشمار مقدمات ہیں۔ وسیم اختر جب کراچی کے میئر تھے تو ان پر کرپشن کے الزامات لگے،ان کا شارٹ ٹیمپر ہونا اور لندن سے رابطوں کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی آڑے آرہے تھے ۔اسی طرح کشور زہرہ اور عامر چشتی پر اس نوعیت کے اعتراضات تھے جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ ایم کیو ایم کو یقین ہوگیا کہ وفاقی حکومت گورنر سندھ کا منصب دینا ہی نہیں چاہتی۔لیکن اتمام حجت کی خاطر فہرست پر نظر ثانی کا فیصلہ ہوا۔نسرین جلیل نے خرابی صحت کا عذر پیش کرتے ہوئے معذرت کرلی جبکہ وسیم اختر نے وزیر بنائے جانے کی یقین دہانی پر اپنا نام واپس لے لیا۔اب رابطہ کمیٹی اور کنوینر خالد مقبول صدیقی نے ڈپٹی کنوینرز کو یہ اختیار دے دیا کہ مزید دو نام تجویز کریں۔
اس حوالے سے اجلاس ہوا تو خواجہ اظہار الحسن نے کامران ٹیسوری کا نام تجویز کردیا۔ڈپٹی کنوینر کیف الورا نے تائید کی۔عامر خان، وسیم اختر اور عبدالوسیم سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ دوسرا نام عبدالوسیم کا سامنے آیا ،اس پر بھی اتفاق رائے ہوگیا۔
رابطہ کمیٹی سے منظوری لینے کے بعد خالد مقبول صدیقی نے نظر ثانی شدہ فہرست حکومت کو بھجوادی۔اب ترتیب یہ تھی کہ سرفہرست عامر خان کا نام تھا جبکہ اس کے بعد کشور زہرا،کامران ٹیسوری،عبدالوسیم اور عامر چشتی کے نام تھے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ گورنر کا عہدہ ایم کیو ایم کو مل جائے گا۔ لیکن پھر 9 اکتوبر کو کامران ٹیسوری کے نام قرعہ فال نکل آیا تو ہلچل مچ گئی۔بالخصوص جب عامر خان کو معلوم ہوا کہ ان کا نام تو سب سے اوپر تھا اور تیسرے نمبر والے کو اُٹھا کر گورنر لگا دیا گیا ہے تو وہ فوراً متحرک ہوگئے۔
ملیر میں تعینات ایک سرکاری افسر جنہیں چند روز پہلے ہی ہٹایا گیا ہے ،یہ نہ صرف عامر خان کے منہ بولے بھائی بلکہ نہایت مؤثر شخص ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کے ایک تگڑے وفاقی وزیر سے ان کی کاروباری شراکت داری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملیر میں ڈویلپمنٹ کے بیشتر ٹھیکے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اس وفاقی وزیر کی کمپنی کو دیئے گئے ہیں۔
ایک طرف یہاں سندھ میں یہ صاحب گورنر کی تبدیلی کے لئے فعال ہوگئے تو دوسری طرف اس وفاقی وزیر نے کابینہ کے ایک اور رُکن سے ساز باز کرکے مرضی کا گورنر لانے کی کوشش شروع کردی۔اعلیٰ سطح کا ایک اجلاس ختم ہونے پروفاقی وزیر نے اہم ترین عسکری شخصیت کے کان میں سرگوشی کی کہ ایم کیو ایم اس فیصلے پر خوش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔یہ بات شہبازشریف تک پہنچی تو انہوں نے ایم کیو ایم کے وفد کو ملاقات کیلئے بلالیا۔ خالد مقبول صدیقی ملاقات کیلئے وسیم اختر اور فیصل سبزواری کے علاوہ کامران ٹیسوری کو بھی ساتھ لے گئے اور بتایا کہ ایم کیو ایم کو کوئی اعتراض نہیں۔
بعد ازاں ایم کیو ایم کے وفد کی انہی دو وفاقی وزرا کیساتھ ملاقات ہوئی تو و ہ کامران ٹیسوری کی موجودگی میں یہ باور کروانے کی کوشش کرتے رہے کہ آپ کا فیصلہ درست نہیں، عامر خان سینئر ہیں، آپ ان کا نام تجویز کردیں تو گورنر تبدیل ہوجائے گا۔
مگر ان معزز وزرا کو بتایا گیا کہ یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے اور اس پر کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ میں نے اس حوالے سے بذات خود خالد مقبول صدیقی سے بات چیت کی تو انہوں نے حلفاً کہاکہ کسی کی خواہش یا فرمائش پر کامران ٹیسوری کو گورنر کے لئے نامزد نہیں کیا گیا بلکہ یہ فیصلہ ان کی جماعت نے متفقہ طور پر کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’مولا جٹ‘کے برعکس’نوری نت‘ کو گورنر بنانے کیلئے ترغیبات دی گئیں۔ انہوں نے ترغیبات کی باقاعدہ تفصیل بھی شیئر کی لیکن بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے فی الحال صیغہ راز میں ہی رکھا جائے۔سازشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن میرا خیال ہے کہ’’مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئیں مردا‘‘۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔