بلاگ
Time 27 اکتوبر ، 2022

ایران پاکستان گیس پائپ لائن کبھی کام آئے گی یا اس خطے کی نارڈ اسٹریم ٹو ثابت ہوگی؟

فوٹو:فائل
فوٹو:فائل

حکومت نے کہا ہے کہ وہ روس سے گیس خریدے گی ۔ وجہ یہ ہے کہ توانائی بحران کا شکار پاکستان کیلئے یہ مشکل ہے کہ وہ عرب ممالک سے اسی قیمت پر گیس خریدے جو یوکرین جنگ سے پہلے کی تھیں۔ 

سردیاں سر پر ہیں اور ترقی یافتہ ممالک، آسمان سے باتیں کرتی گیس کی قیمتوں کے باوجود ،اپنے سودے کرچکے۔ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک یا تو بجلی اور چولہے بند کر کے بیٹھ جائیں یا پھر اس روس کی جانب بڑھیں جس کا مغرب نے ناطقہ بند کر رکھا ہے اور وہ جو بھی لے کی بنیاد پر سستی ترین پیٹرولیم مصنوعات بیچ رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی کبھی کام آئے گی یا یہ اس خطے کی نارڈ اسٹریم ٹو ثابت ہوگی؟

نارڈ اسٹریم 2 وہ زیر سمندر پائپ لائن ہے جو روس کو جرمنی سے ملاتی ہے ۔ یہ نارڈ اسٹریم ون کے متوازی رکھی گئی ہے مگر جرمنی کو گیس فراہمی کیلئے پائپ لائن کو کلیئرنس ملنے سے پہلے ہی فروری میں یوکرین جنگ چھڑ گئی تھی جس کے نتیجے میں یورپی ممالک نے روس سے رشتے توڑ لیے۔ اس طرح گیارہ ارب ڈالر سرمایہ سے بچھائی گئی روسی پائپ لائن کی قسمت اس لڑکی جیسی ہوگئی جس کے ہونے والے شوہر کو شادی کے روز گولی ماردی گئی ہو۔

ایران اور پاکستان زمینی سرحد سے جڑے ہیں اس لیے یہاں زیر آب تو نہیں زیر زمین پائپ لائن بچھانے کا پروگرام 1990 کی دہائی میں بنایا گیا تھا۔ اس وقت بھارت بھی گیس کا خریدار تھا اس لیے اس پراجیکٹ کو ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا تھا۔ 27 سو کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کا ایک ایک ہزار کلومیٹر حصہ ایران اوربقیہ پاکستان اور بھارت میں بچھایا جاتا۔

ایرانی حکام کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 150 ملین میٹرک کیوبک فٹ گیس ان دونوں ملکوں کو دی جانی تھی جس میں سے 90 ملین میٹرک کیوبک فٹ بھارت اور 60 ملین میٹرک کیوبک فٹ پاکستان کو ملتی، امریکا کی قربت ، ایران پر پابندیوں اور بعض امور کو بنیاد بنا کر بھارت پیچھے ہٹا تو منصوبہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

آئی پی منصوبہ 2014 میں مکمل ہونا تھا۔بلوچستان کےراستے گیس کراچی اور ملتان پہنچنا تھی۔ ایران نے پائپ لائن اپنی سرحد تک بچھا بھی لی مگر 25 سال تک گیس لینے کے اس منصوبے کا جو حصہ پاکستان میں بننا تھا وہ شروع نہ کیا جاسکا۔ پاکستانی حکومتوں کا مؤقف رہا ہے کہ ایک طرف ایران پر امریکی پابندیاں اس منصوبے کی راہ میں حائل ہیں اور دوسری جانب گیس کی قیمت پربھی اختلافات دور نہیں ہوئے۔

حکومتی مؤقف اپنی جگہ ،جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے 7 سال پہلے بتایا تھا کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی جائے گی۔ اس اہلکار نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ڈیموکریٹ صدر ہو یا ری پبلکن، گیس پائپ لائن سےمتعلق امریکا کی پالیسی تبدیل نہیں کی جائے گی۔ ایران پر پابندیاں لگانے والے امریکا کے نزدیک اس کی ٹھوس وجوہات بھی ہیں۔ یہ صدر بائیڈن کے اس بیان کی طرح ہے جس میں انہوں نے روس کو خبردار کیا تھا کہ اگر یوکرین پر حملہ کیا تو نارڈ اسٹریم 2 کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔

جیسے نارڈاسٹریم کو گیس کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوا، اسی طرح پاکستان ایران گیس پائپ لائن بھی مکمل نہ ہونی تھی نہ ہوئی۔ ایران نے دس طریقے بتایے، سہولتوں اور5 سوملین ڈالر امداد کی پیشکش بھی کی مگر 7 ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ نہ مکمل ہونا تھا، نہ ہوا۔

اب روس سے پیٹرولیم مصنوعات خریدنے کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ امریکا کو اس پر اعتراض نہیں۔ ممکن ہے نہ ہو مگر پاکستان سے زیادہ گیس کی ضرورت تو اس جرمنی کو ہے جو یورپ میں سب سے بڑا صنعتی ملک ہے اور روس سے گیس سپلائی بند ہونے کی وجہ سے اس کی انڈسٹری بری طرح متاثر ہے۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ روس ، یورپ کو ڈرا رہا ہےکہ دیکھو جاڑا تمھیں جکڑنے آرہا ہے۔ یعنی سخت سردیوں اور برفباری میں جب یورپ میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے ہوگا اس وقت نہ صرف صنعتوں کو چلانے بلکہ گھروں کو گرم رکھنے کے لیے بھی زیادہ گیس کی ضرورت ہوگی۔

کڑاکے کی سردیوں مِں نیٹو اتحادی یورپ دیکھتا رہ جائے جبکہ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات روس سے خریدتا چلا جائے، یہ غیرمعمولی اقدام ہوگا۔

سفارتی لحاظ سے دیکھیں تو اس لیے بھی بہت بڑا قدم ہوگا کیونکہ روس نے کراچی اور لاہور کے درمیان جس گیس پائپ لائن کو بچھانے کی پیشکش کی تھی، اس پر بھی پاکستان میں عمل نہیں کیا جاسکا۔ اتفاق یہ کہ اس گیس پائپ لائن کا نام نارڈ اسٹریم تو نہیں تاہم نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن ضرور رکھا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا پھول تھا جس کی قلم لگانے کیلئے مٹی تک تیار نہیں کی گئی تھی۔

یعنی جوپائپ لائن روس نے خود سرمایہ جمع کر کے پاکستان میں بچھانا تھی اگر وہی پاکستان نے نہ بنائی ہو تو پورے پیسے دے کر تیل لینا کتنے بڑے دل گردے کا کام ہوگا یہ تصور محال نہیں۔ اسحق ڈار صاحب ، گُڈ لک۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔