01 نومبر ، 2022
اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی تنقید کا مرکز مکمل طور پر ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بنا لیا ہے۔ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے۔ ماضی کے برعکس، اب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑیوں کے نام لینا شروع کر دیے ہیں۔
وہ براہِ راست اُن پر کئی غلط کاموں کا الزام عائد کر رہے ہیں حتیٰ کہ عوامی اجتماعات میں چیخ کر ان کا نام لیتے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر صورتحال کو عمران خان بمقابلہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کر دیا ہے۔ ملٹری قیادت کیخلاف ان کی الزامات کی فہرست ہر گزرتے دن کے ساتھ طویل ہوتی جا رہی ہے۔
وہ اُن پر عوام کی خواہشات کے برعکس شہباز شریف کی حکومت لانے اور کرپٹ لوگوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ وہ اُن پر صحافیوں کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں حتیٰ کہ ارشد شریف کے قتل کے معاملے میں بھی ان پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر اعظم سواتی اور شہباز گل پر زیر حراست برہنہ کرکے تشدد کا الزام عائد کیا۔ عمران خان کا کوئی ٹی وی انٹرویو یا خطاب ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ عسکری قیادت پر تنقید نہ کر رہے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود وہ اسی اسٹیبلشمنٹ سے جلد انتخابات اور موجودہ حکومت کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی میں کوئی نہیں جانتا کہ عمران خان کہاں جا کر رُکیں گے؟ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ان کے حملوں کی حد کیا ہوگی۔ پیر کو لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل گئی ہے جبکہ پاکستان کے عوام اُن کیساتھ ہیں۔
انہوں نے ادارے کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے موجودہ حکمران اتحاد کا ساتھ دیا تو عوام ان کیخلاف کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی موجودہ حکومت کی حمایت کرے گا اسے عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی دن ایک ٹوئٹ میں عمران خان نے خبردار کیا کہ عوام کا سمندر جی ٹی روڈ پہنچے گا۔ 6؍ ماہ سے میں ملک میں انقلاب برپا ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا یہ بیلٹ باکس کے ذریعے آنے والا پرسکون انقلاب ہوگا یا خونریزی کے ذریعے آنے والا تباہ کن انقلاب ثابت ہوگا؟
افسوس کی بات ہے کہ عمران خان کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس سنگینی کے ساتھ اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ایک خونی انقلاب کیسے اُن کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے دباؤ میں لانے والی چالبازیوں سے وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے جلد انتخابات اور موجودہ حکومت کا ہٹایا جانا حاصل کرلیں گے لیکن اس عمل کے دوران وہ اپنے حامیوں کے دلوں میں اداروں کیخلاف نفرت انڈیل رہے ہیں۔
کبھی تو وہ یہ کہتے ہیں کہ فوج ملکی سالمیت اور دفاع کیلئے کس قدر اہم ہے۔ لیکن جو کچھ بھی وہ عوامی اجتماعات میں اور خطبات میں کہہ رہے ہیں وہ عوام کے دلوں میں اپنی ہی فوج کیخلاف زہر گھولنے جیسا ہے۔ عمران خان نے ملکی سیاست میں شدید نفرت کا ماحول پیدا کیا۔ چاہے یہ ارادی طور پر تھا یا غیر ارادی، وہ اداروں کیخلاف زہر افشانی ہی کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی پس منظر کی بات چیت سے لگتا ہے کہ یہ لوگ بھی نہیں جانتے کہ یہ سب کرکے عمران خان آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی اپنی چال نہیں بتاتے۔ اُن کی جماعت کے کچھ رہنما اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اداروں کی توہین کی وجہ سے عوام میں نفرت پھیل رہی ہے۔
عمران خان واقعی مقبول ہیں۔ وہ اور ان کی جماعت زیادہ تر ضمنی انتخابات جیت رہی ہے۔ ان کی پارٹی کے رہنما سمجھتے ہیں کہ یہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے مفاد میں ہے کہ حکومت کے ساتھ بات کی جائے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خراب تعلقات نہیں رکھنا چاہئیں۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی والے خود جانتے ہیں کہ مارچ 2023ء سے پہلے الیکشن نہیں ہوسکتے۔
مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہے کہ انتخابات جون 2023ء میں ہو جائیں لیکن عمران خان کی جانب سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نے سنگین عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے جسے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی تبدیلی کے باوجود بھی درست نہیں کیا جا سکتا۔