فیکٹ چیک : ضبط شدہ اسلحے کی فوٹیج پی ٹی آئی کے 25 مئی کے لانگ مارچ کی ہے

پنجاب پولیس حکام کی 25 مئی کے لانگ مارچ کی پریس کانفرنس کو اکتوبر لانگ مارچ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

متعدد سوشل میڈیا پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پنجاب پولیس نے لاہور میں بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا ہے جو سابق وزیراعظم عمران خان کے حالیہ لانگ مارچ کے دوران استعمال کیا جا سکتا تھا۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے

دعویٰ

29 اکتوبر کو، ایک ٹوئٹر صارف نے لاہور میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز کی پریس کانفرنس کی ویڈیو پوسٹ کی۔

سینئر پولیس اہلکار نے اپنی پریس کانفرنس میں ضبط شدہ اسلحے کی تصاویر دکھاتے ہوئے میڈیا کوبتایا کہ” کل رات کو اس کی انفارمیشن کو  ڈویلپ کرتے ہوئے ہم نے موٹر وے کے قریب  ناکہ بندی کی، اور ہم نے، جو پی ٹی آئی لاہور کے جنرل سیکرٹری ہیں، ان کے گھر پر  جب ہم نے ریڈ کیا تو   یہ جو  آپ کے سامنے موجود جو بہت ہیوج کوانٹیٹی میں اسلحہ ہے، یہ تمام کا تمام اسلحہ ان کے گھر وں سے نکلا ۔

ہمیں یہ پورا یقین ہے ، کیونکہ یہ اسلحہ باکل لیٹیسٹ (جدید) طرز کا ہے اور بالکل نیا ہے۔

 میڈیا اس کو لازماً دکھا رہا ہو گا ، کہ یہ بالکل نیا اسلحہ ہے اور کل رات بارہ بجے جب یہ لاہور شہر میں ٹرانسپورٹ کیا گیا ہے، تو اس کا ایک بہت اپیئرڈ (واضح) مقصد یہ نظر آتا ہے کہ یہ جو مارچ کیا جا رہا ہے، اس میں یہ استعمال ہونے کا پورا چانس تھا۔ “

اس ویڈیوکو ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ نے اس کیپشن کے ساتھ پوسٹ کیا گیا کہ ”ایجنسیوں کی رپورٹس اور فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس ایک حقیقت ہے ۔“

یعنی اس پریس کانفرنس کو سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جمعہ کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب شروع کیے گئے لانگ مارچ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

اس ویڈیو کو ٹوئٹرپر 1000 سے زائد مرتبہ دیکھا اور 200 سے زائد مرتبہ ری ٹوئٹ کیا جا چکا ہے۔

ایک اور سوشل میڈیا صارف نے فیس بک پریہی ویڈیو اپلوڈ کرتے ہوئے لکھا کہ خان کا مارچ ایک پرتشدد مارچ ہے۔

حقیقت

یہ ویڈیو 25 مئی کی ہے، جب عمران خان پچھلی مرتبہ موجودہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔

اس وقت ڈی آئی جی آپریشنز پولیس سہیل چوہدری نے لاہور، پنجاب میں اعلیٰ پولیس حکام کے ساتھ پریس کانفرنس کی تھی، جس میں انہوں نے عمران خان کی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے دو اراکین کےگھر سے پولیس کی جانب سے برآمد کیے گئے اسلحے کی تصاویر بھی دکھائی تھیں۔

اس پریس کانفرنس کو کئی مقامی ٹیلی ویژن چینلز نے براہ راست نشر کیا اور ساتھ ہی ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کے آفیشل اکاؤنٹ سے بھی پوسٹ کیا گیا۔

درحقیقت سہیل چوہدری اب لاہور میں ڈی آئی جی آپریشنز نہیں ہیں۔ بلکہ یکم اگست2022 کو ان کی جگہ افضال احمدکوثرکو ڈی آئی جی آپریشنزتعینات کیا گیا تھا۔ اس لیے یہ دعویٰ بالکل غلط ہےکہ یہ پریس کانفرنس حالیہ لانگ مارچ کے حوالے سے کئی گئی ہے۔

ہمیں @GeoFactCheck  پر فالو کریں۔

 نوٹ : اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔