02 نومبر ، 2022
وزیراعظم شہباز شریف فوج میں اعلیٰ ترین تقرریوں کے معاملے میں کسی جلد بازی میں نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔
دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ کون آرمی چیف بنے گا اور کون جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین۔
اسی دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دفاعی حکام نے بھی کوئی سمری ارسال نہیں کی جس میں سینئر ترین عہدوں پر تقرری کیلئے تھری اسٹار جرنیلوں کے نام لکھے ہوں۔
آرمی چیف اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر تقرریاں وزیراعظم کا استحقاق ہے۔ عموماً وزیراعظم کو سمری ارسال کرنے کا معاملہ نومبر کے وسط پر شروع ہوتا ہے تاوقتیکہ وزیراعظم خود ہی موزوں نام طلب کرلیں۔
تاہم، حکمران نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں میں آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدوں تقرری کے حوالے سے غیر رسمی بات چیت ہوئی ہے۔
اگرچہ مجاز اتھارٹی وزیراعظم ہیں لیکن وہ ان تقرریوں کے معاملے میں کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی میاں نواز شریف کے ساتھ مشاورت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ تقرری کے اعلان سے قبل، توقع ہے کہ وزیراعظم اپنے اتحادی شراکت داروں کو اعتماد میں لیں گے۔
نون لیگ کے ذریعے کے مطابق، وزیراعظم اس مرتبہ سینیارٹی پر زور دے سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ لازم نہیں لیکن ان تقرریوں کے حوالے سے وزیراعظم غیر رسمی طور پر سبکدوش ہونے والے آرمی چیف سے بھی مشورہ لے سکتے ہیں۔
ایک سینئر صحافی نے اپنی تازہ ترین ٹوئٹ میں اشارتاً کہا ہے کہ ترقی (بطور فور اسٹار جرنیل) اور تقرری کیلئے سینئر لیفٹیننٹ جنرل کے نام پر غور نہیں کیا جائے گا کیونکہ اُن کی ریٹائرمنٹ 29؍ نومبر سے چند روز پہلے آ رہی ہے۔
تاہم، دفاعی ذرائع نے رابطہ کرنے پر دی نیوز کو بتایا کہ سینئر ترین عہدوں پر تقرری کیلئے سمری ارسال کیے جانے کے وقت پینل میں تمام سینئر ترین افسران کے نام شامل کیے جائیں گے جن میں سے وزیراعظم اپنی پسند سے عہدوں پر تقرری کریں گے۔ عموماً ایک عہدے کیلئے تین افسران کے ناموں پر غور کیا جاتا ہے۔
سینیارٹی کے لحاظ سے دیکھیں تو جن 6؍ افسران کے ناموں پر سینئر ترین عہدوں پر تقرری کیلئے غور کیا جا سکتا ہے اُن میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر شامل ہیں۔
ان تقرریوں پر میڈیا، سیاستدانوں حتیٰ کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی توجہ مرکوز رہی ہے۔ تاہم، اس مرتبہ عمران خان کی جانب سے ان عہدوں پر تقرریوں کو آئندہ عام انتخابات تک موخر کرنے کے مطالبات کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا ہے۔
عمران خان نے تجویز دی تھی کہ موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے عہدے میں آئندہ انتخابات تک توسیع کی جائے۔ عمران خان کی رائے تھی کہ یہ تقرریاں مستقبل کے وزیراعظم کو کرنا چاہئیں، موجودہ حکومت کے پاس اختیار نہیں کہ وہ یہ تقرریاں کرے۔
عجیب بات ہے کہ صدر عارف علوی نے بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ان تقرریوں کے معاملے میں مشاورت کی بات کی تھی۔ نہ صرف آرمی چیف جنرل باجوہ نے 29؍ نومبر کے بعد عہدے پر مزید کام سے انکار کیا بلکہ وزیراعظم اور ان کے اتحادی پارٹنرز نے بھی عمران خان اور صدر علوی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ آئین اور قانون کے مطابق تقرریاں وزیراعظم کا استحقاق ہے۔
حال ہی میں ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ عمران خان نے مارچ میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کیلئے توسیع دینے کی پیشکش کی تھی تاکہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک سے اپنی حکومت بچا سکیں۔ جنرل باجوہ نے پیشکش مسترد کر دی اور سیاسی ہیرا پھیری کا حصہ بننے یا مداخلت سے انکار کردیا۔