مداری

’حقیقی آزادی سے کیا مراد ہے اور یہ آزادی کس سے حاصل کرنی ہے؟‘‘کچھ لوگوں نے یہ سوال پوچھا تو مجھے سانڈے کا تیل بیچنے والے مداری یاد آگئے۔سانڈایا سانڈھا چھپکلی سے مشابہت رکھنے والا ایک بے ضرر سا جانور ہے جو زیادہ تر صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔آپ نے بچپن میں کسی مداری کا تماشا دیکھا ہوگا جس میں مختلف کرتب دکھانے یا دنیا کا سب سے زہریلا سانپ پٹاری میں موجود ہونے کا دعویٰ کرکے سانڈے کا تیل بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 

لاہور میں بھاٹی اور لوہاری کے آس پاس سڑک کنارے بیٹھے کئی لوگ اب بھی انواع واقسام کی شیشیاں سجائے سانڈے کا تیل بیچتے دکھائی دیں گے۔جب شکاری ریتیلے علاقوں سے ان سانڈوں کو پکڑ کر لاتے ہیں تو ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی جاتی ہے تاکہ یہ زندہ تو رہیں مگر بھاگ نہ سکیں۔

سانڈے کے تیل کی مقبولیت کا راز اس مغالطے میں پنہاں ہے کہ یہ مردانہ طاقت میں بے پناہ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ان سڑک چھاپ حکیموں نے بھی سانڈے کا تیل بیچنے کے لئے ایک دو پٹاریوں میں سانپ رکھے ہوتے ہیں تاکہ گاہک کو مرعوب کیا جاسکے۔لیکن مجھے بچپن میں کئی بار دیکھامداری کا تماشا نہیں بھولتا۔ڈگڈگی بجتے ہی لوگ اس کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتے۔وہ نہایت جادوئی آواز میں بات کا آغاز کرتے ہوئے کہتا’’سب انسان، قدردان، مہربان،بھائی جان توجہ فرمائیں۔نابالغ بچے یہاں سے چلے جائیں ۔

مداری اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔مداری کا ساتھ دینے کے لئے ایک بچہ ہوتا ہے جسے وہ چھوٹا کہہ کر مخاطب کرتا ہے ۔مداری کہتا ہے گھوم جا۔چھوٹا کہتا ہے جی استاد۔پھر اس چھوٹے کو ایک چادر نما کپڑے میں چھپا دیا جاتا ہے۔چند چھوٹے موٹے کرتب دکھانے کے بعد مداری اس بچے کا سر تن سے جدا کردیتا ہے اور نہایت کربناک آواز میں تماشائیوں سے اپنی جگہ پر جم کر کھڑے رہنے کی استدعا کرتا ہے۔وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگر وہاں موجود کسی بھی تماشائی نے اپنا دایاں پاؤں ہلایا تو اس بچے کی جان چلی جائے گی ۔

تماشائی سہم جاتے ہیں ۔جو لوگ جانے کا سوچ رہے ہوتے ہیں ان کے قدم بھی رُک جاتے ہیں کیونکہ ایک بچے کی زندگی کا سوال ہے۔ایک بار اپنی باغیانہ روش سے مجبور ہو کر میں نے دایاں اور بایاں دونوں پائوں ہلاکردیکھ لئے تو یہ طلسم ٹوٹ گیا اور معلوم ہوا کہ مداری کی اس ترکیب کا مقصد محض تماشائیوں کو واپس جانے سے روکنا ہے۔پھر اچانک وہ مداری سانڈے کی چربی کے جادوئی اثرات اور فضائل بیان کرنا شروع کردیتا ہے۔اس کی سب سے اہم ترین دلیل یہ ہوتی ہے کہ جوسانڈاگرم ترین صحرائی علاقے میں زندہ رہتا ہے اس کی چربی میں قدرت نے کیسی طاقت رکھی ہوگی۔چند لوگ اس کی باتوں سے متاثر ہوکر سانڈے کے تیل کی شیشیاں خرید لیتے ہیں۔جب آخر میں سانپ دکھانے کا موقع آتا ہے تو وہ مداری کوئی نیا بہانہ کرکے کھسک جاتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ اگلی بار ملیں گے تو ضرور سانپ دکھاؤں گا۔

شاید آپ میں سے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں کہ چولستان میں پائے جانے والے سانڈے اور اس کا تیل بیچنے والے مداری کے ساتھ عمران خان کے لانگ مارچ اور حقیقی آزادی کی جدوجہد کا کیا تعلق؟ اگرالفاظ کی جادوگری کے ذریعے لوگوں کی روحانی اور جسمانی تسکین کا اہتمام اور بندوبست کرلیا جائے تو مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہوکر سب مخالفین کو روندتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

سانڈے کا تیل تب ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت کیا جاسکتا ہے جب تک لوگوں میں یہ تجسس برقرار رہے کہ پٹاری میں کچھ نہ کچھ ہے ۔چنانچہ انہوں نے نہایت پرکشش مگر مبہم اصطلاحات کو اپنے بیانئے کا حصہ بنادیا۔

مثال کے طور پر کہا گیا کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔اب اس نئے پاکستان کے خد وخال کیا ہوں گے ،اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔اقتدار سے رخصتی کے بعد کہا،ہم کوئی غلام ہیں ،بھیڑ بکریاں ہیں کہ آپ جو کہیں گے مان لیں گے۔اور اب حقیقی آزادی کے حصول کی جدوجہد۔لیکن اگر ان اصطلاحات کے مفہوم پر بات کی جائے کہ کس کی غلامی سے اور کیسے نجات حاصل کرنا ہے،حقیقی آزادی کس سے درکار ہے،تو ان سوالات کے جواب دستیاب نہیں۔کیونکہ ان سیاسی نعروں کی حیثیت مداری کی پٹاری میں رکھے اس سانپ کی سی ہے جو ایک بار باہر آگیا تو تماشا ختم ہوجائے گا اور پھر سانڈے کا تیل نہیں بیچا جا سکے گا۔

آپ نے ابراہم لنکن کا وہ مشہور زمانہ قول تو سنا ہوگا کہ آپ کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف بنا سکتے ہیں ،سب لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔مگر سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن آپ عمران خان کو یہ کریڈٹ دیں کہ انہوں نے اس بات کو غلط ثابت کردیا اورلوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بہت عرصہ سے بیوقوف بنا رکھا ہے۔ جس طرح مداری دیہات میں سادہ لوح اور ان پڑھ لوگوں کو بیوقوف بنایا کرتے تھے،اسی طرح سیاستدان لوگوں کے بھولپن کافائدہ اُٹھاتے رہے ہیں مگر عمران خان وہ منفرد شخص ہیں جنہوں نے اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے کو چونا لگایا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔