جیو فیکٹ چیک: اداروں سے متعلق پوسٹس کیخلاف ایف آئی اے کو اختیار دینے پر غور کا دعویٰ درست

2 نومبر کو سوشل میڈیا پر زیر گردش پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے پر ایف آئی اے کو دیے گئے نئے اختیارات کے تحت 7 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

سوشل میڈیا صارفین اور مقامی میڈیا کی رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو آن لائن پوسٹس ”ریاستی اداروں سے متعلق غلط معلومات پھیلانے“کے خلاف قانونی کارروائی اور تحقیقات کے لیے بااختیار بنانے کے لیے ایک سمری کی منظوری دے دی ہے۔

یہ دعویٰ بالکل درست ہے۔

دعویٰ

2 نومبر کو سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس گردش کرنے لگیں ،جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے پر ایف آئی اے کو دیے گئے نئے اختیارات کے تحت 7 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اس سے ملتے جلتے بہت سارے بیانات متعدد سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیے گئے۔

حقیقت

یہ خبربالکل درست ہے اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔

27 اکتوبر کو وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کو خط لکھا ،جس میں ایف آئی اے ایکٹ 1974 میں تبدیلی کی تجویز پیش کی گئی۔

جیو فیکٹ چیک کو موصول ہونے والے اس خط میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا ”ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات اور افواہوں سے بھرا پڑا ہے“ جس کا مقصد پاکستان کی فوج، بحریہ یا فضائیہ کے کسی افسر، سپاہی یا ائیر مین کو بغاوت پر اکسانا ہے۔“

اس کے بعد وزارت نے یہ درخواست کی ہے کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 505 کو ایف آئی اے ایکٹ کے شیڈول میں شامل کیا جائے اور ساتھ ہی سیکشن 295-B بھی شامل کیا جائے۔

پاکستان پینل کوڈ(پی پی سی) کا سیکشن 505 "عوامی فساد" کے بیانات سے متعلق ہے، جیسے کسی افسریا سپاہی کو بغاوت پر اکسانے کے ارادے سے افواہیں پھیلانا یا اس کی ڈیوٹی میں غفلت یا کوتاہی کرنا۔

اس سیکشن میں ایک مدت کے لیے قید کی سزا ہے، جو جرمانے کے ساتھ 7 سال تک بڑھ سکتی ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جیو فیکٹ چیک سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایف آئی اے کے قانون میں تبدیلیاں لانے پر غور جاری ہے تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ابھی کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔

انہوں نے جیو فیکٹ چیک کوٹیلی فون پربتایا کہ ” ابھی اس کی اپروول، یا ڈس اپروول کے لیے ایک آدھ دن میں کوئی میٹنگ ہو گی، کیونکہ سوشل میڈیا کے اوپر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو کسی نہ کسی طرح سے ریگولیٹ کرنا تو بنتا ہے، ریگولیٹ ہونا چاہیئے۔“

ان کا اس حوالے سے مزید یہ کہنا تھا کہ ” اگر (ایسی تبدیلیاں) میڈیا کی آزادی کو نقصان پہنچاتی ہیں تو ایسا نہیں ہوگا،جب تک تمام صحافی کمیٹیاں اس تبدیلی کے ساتھ مکمل طور پر متفق نہیں ہوں گی، ہم اسے منظور نہیں کریں گے۔“

ہمیں @GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔