Time 05 نومبر ، 2022
پاکستان

’’سیاسی ایف آئی آر‘‘ درج کرانے پر عمران کا اصرار، پرویز الٰہی کا انکار

عمران خان کے برعکس، پرویز الہٰی کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں/فوٹوفائل
عمران خان کے برعکس، پرویز الہٰی کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں/فوٹوفائل 

اسلام آباد : وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی عمران خان کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور انہیں جمعرات کے قاتلانہ حملے کے معاملے کو سیاسی بنانے اور اس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ملوث کرنے کی بجائے حقیقت پر مبنی ایف آئی آر درج کرانے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی معاملے کو اس نہج پر لیجانے سے بچانا چاہتا ہے جہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کسی رکن کا نام ایف آئی آر میں درج کرا دیا جائے کیونکہ یہ صورتحال نہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کیلئے اچھی ہوگی اور نہ ملک اور اس کے اداروں کیلئے۔

وہ مشتبہ حملہ آور جو دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے بغیر کسی مدد و حمایت کے اپنے تئیں عمران خان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، پولیس کی حراست میں ہے۔

حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد عمران خان نے جمعرات کو اسد عمر کے ذریعے تین افراد کے نام لیے جن میں شہباز شریف، رانا ثناء اللّٰہ اور سینئر فوجی افسر شامل ہیں جنہیں عمران خان نے اپنی جان پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ اب تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔

عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مشتبہ حملہ آور اور نامعلوم افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کریں نہ کہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور حاضر سروس میجر جنرل کو۔ عمران خان نے پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی۔ پی ٹی آئی یا پھر پنجاب حکومت میں سے کوئی نہیں بتا رہا کہ پرچہ کٹوانے میں دیر کیوں ہو رہی ہے۔ تاہم، پنجاب حکومت یہ نام بالخصوص کسی فوجی کا نام پرچے میں شامل کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی نے اس معاملے پر عمران خان سے بات چیت کی ہے۔ عمران خان کے برعکس، پرویز الہٰی کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ پرویز الہٰی نہیں چاہتے کہ پولیس وہ ایف آئی آر کاٹے جو عمران خان چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ معاملہ انسدادِ دہشت گردی محکمے کو بھیجا ہے تاکہ سائنسی بنیادوں پر منطقی تحقیقات ہوسکیں اور ساتھ ہی یہ پتہ چلایا جا سکے کہ گرفتار شدہ مشتبہ حملہ آور کے پیچھے کون ہے۔

جمعہ کو عمران خان نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ اور حاضر سروس میجر جنرل کا نام لیا کہ ان تینوں نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ یہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ لانگ مارچ میں لوگ تیزی سے بڑھ رہے تھے۔

عمران خان نے اپنے حامیوں سے اپیل کی کہ وہ ان تین افراد کے عہدوں سے ہٹنے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اسی دوران، معلوم ہوا ہے کہ اصل میں عمران خان اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے ناراض تھے کہ وہ قاتلانہ حملے کے بعد جمعہ کو لوگوں کی زیادہ تعداد کو سڑکوں پر احتجاج کیلئے نہیں لا سکے۔

ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے کہا کہ دیکھیں کہ لوگوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد کس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت لوگوں نے تین دن تک احتجاج کیا تھا اور زندگی کا پہیہ پورے ملک میں جام ہو گیا تھا، لیکن میرے [عمران خان] معاملے میں پی ٹی آئی لیڈر سڑکوں پر لوگوں کو لا ہی نہ سکے اور صرف چند گھنٹوں کیلئے چند مظاہرے ہوئے۔

انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے کہا کہ وہ کھل کر مذکورہ تینوں افراد کے نام لیں جنہوں نے جمعرات کو میری [عمران خان] جان پر حملہ کرایا۔

مزید خبریں :