14 نومبر ، 2022
بہت اچھی خبرہے کہ حکومت پاکستان نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک کی طرف سے سپریم کورٹ میں وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے تو اپیل بھی واپس لے لی ہے، امید ہے نیشنل بینک بھی جلد ہی ایسا کرے گا۔ چند ایک نجی بینکوں نے بھی سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں،ان سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ انہیں واپس لےلیں گے ورنہ ایک تو حکومت کو ان بینکوں پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ ایسا کریں ورنہ عوام کو ایسے بینکوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور ان بینکوں سے اپنے اکاؤنٹ دوسرے بینکوں میں ٹرانسفر کروالینے چاہئیں جس کے لئے مذہبی سیاسی جماعتوں اور علمائے کرام کو اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔
میرے ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے گزشتہ ہفتے کئے گئے اس فیصلے کے پیچھے میاں نواز شریف کا اہم کردار ہے۔ جی ہاں وہی میاں نواز شریف جن کے دورِ حکومت میں 1992 میں وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خاتمے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور پھر اس کیس کوعدالتوں میں ایسا گھمایا گیا کہ 30سال ضائع ہو گئے اور اب دوبارہ وفاقی شرعی عدالت نے وہی فیصلہ سنا دیا ہے۔
اگرچہ اسحاق ڈار اس معاملے پر پہلے سے ہی کام کر رہے تھے لیکن میری اطلاعات کے مطابق میاں نواز شریف سے حال ہی میں کسی نے رابطہ کیا اور اُنہیں یاد دلایا کہ اُن کی 1992 کی بڑی غلطی کے ازالے کا وقت آ چکا ہے۔ اُنہیں کہا گیا کہ اب چوں کہ پھر ن لیگ کی حکومت ہے اور وزیراعظم اُن کے اپنے چھوٹے بھائی ہیں جن کی حکومت کے دوران ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو چند نجی بینکوں کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک سمیت حکومتی بینکوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے، اس لئے یہ میاں نواز شریف صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غلطی کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف حکومتی بینکوں کی اپیلوں کو سپریم کورٹ سے واپس لیں بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پانچ سال میں پاکستان سے سودی نظام کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
مجھے میرے ذرائع نے یہ بھی بتایا ہےکہ میاں نواز شریف صاحب نے فوری طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ہدایت جاری کی کہ سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں کوفی الفور واپس لیا جائے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے ضروری اقدامات کئےجائیں، اسحاق ڈار نے ایسا ہی کیا۔ اطلاعات کے مطابق اسحاق ڈار اب ایک حکمتِ عملی پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت سود کے خاتمے کے لئےکئے جانے والے اقدامات کا تعین کیا جائے گا۔
یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ مفتی تقی عثمانی جیسے اسلامی معیشت کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے جوسودی نظام کے خاتمے کیلئےوفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کو پانچ سال میں مکمل کرنے کو یقینی بنائے۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اسلامی بینکنگ میں موجود ایسے نقائص کو بھی دور کیا جائے جو یا تواسلامی تعلیمات کے منافی ہیں یا اُس میں کسی بھی طرح کاقرض لینے والے کا استحصال ہو۔ لوگوں کے شعور کیلئے اسلامی بینکنگ کے نظام کو عوام میں متعارف کروایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ کیسے یہ نظام سودی نظام سے مختلف ہے اور کس طرح اسلامی بینکنگ نظام میں وہ استحصال ممکن نہیں جو روایتی بینکنگ میں ہوتا ہے۔
بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی بینکنگ کے نظام کے بارے میں کنفیوژن ہے جسے دور کرنے کی ذمہ داری اسلامی معاشی ماہرین اور حکومت کو پوری کرنی چاہئے۔ بہرحال اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں سود کے خاتمے کیلئے پہلی بار یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ہم اس لعنت سے جان چھڑا پائیں گے۔ اس سلسلے میں جس کسی نے بھی کوئی کردار ادا کیا ہے اور جو جو اس کیلئے آئندہ کام کرے گا، اُن سب کے لئے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اجرِ عظیم کی دعا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔