چائے کی پیالی میں طوفان

مسلح افواج کے نئے سپہ سالار کی تقرری میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔سبکدوش ہونے والے سربراہ اپنے الوداعی دورے شروع کر چکے ہیں۔لیکن پورے ملک میں افواہوں کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔بظاہر یہ ایک سیدھا سا انتظامی عمل ہے جو گزشتہ کئی سال سے روایات کے مطابق سرانجام دیا جا رہا ہے۔

تاہم اس مرتبہ تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما اس موضوع پر خوب اظہار خیال کر رہے ہیں،اس موضوع کو سابق وزیراعظم عمران خان کی تقریروں نے ایک عوامی بحث کا موضوع بنا دیا ۔دستور میں اس حوالے سے کوئی قدغن موجود نہیں کہ کتنے دن پہلے مسلح افواج کے سربراہ کا تقرر کیا جانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات ہمارے جمہوری نظام میں موجود ہیں۔سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ،جنہیں چار آرمی چیف مقرر کرنے کا اعزاز حاصل ہے، نے اس حوالے سے مختلف روایات قائم کی ہیں۔

جنرل آصف نواز کی تقرری کا اعلان دو ماہ قبل ہی کردیا گیا تھا۔جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کا اعلان جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے محض دو دن قبل کیا گیا تھا۔اسی طرح جنرل پرویز مشرف کی تقرری سے قبل انھیں وزیراعظم ہاؤس بلا کر ان کی تقرری کی بابت بتا دیا گیا تھا جبکہ بعض دیگر سربراہان کو اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ 

لہٰذاکوئی لگی بندھی انتظامی روایت موجود نہیں۔فوج کی روایات کے مطابق وزیراعظم ہاؤس سے آرمی چیف کی تقرری کیلئے تین نام طلب کئے جاتے ہیں۔اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ کا بھی تقرر کرنا ہو تو پانچ نام طلب کئے جاتے ہیں۔ عام طور پر پانچ سینئر ترین افسران کے نام وزارت دفاع کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس بھیجے جاتے ہیں جن میں سے کسی ایک شخصیت کو اس عہدے کیلئے نامزد کیا جاتا ہے۔

 سنیارٹی لسٹ میں موجود تمام افسران کی اہلیت، قابلیت اور حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ لہٰذا قوم کو اس امر پر یقین رکھنا چاہئے کہ جو بھی سپہ سالار مقرر ہوگا وہ پاکستان کی آئینی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے دستور میں دیئے گئے اختیارات کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے گا۔مسلح افواج کے سربراہ کی تقرری اور توسیع کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہونے کے باوجود کسی سربراہ کے بارے میں یہ گمان رکھنا کہ وہ ان کی خواہشات کے تابع کام کرے گا تو

ایں خیال است و محال است و جنوں است ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے آئین میں واضح طریقہ کار موجود ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی صفوں میں بے چینی کیوں موجود ہے۔جناب عمران خان جنہوں نے مقبولیت کی معراج حاصل کی تھی وہ عوامی مسائل پر بات کرنے کے بجائے مسلح افواج کو موضوع بحث کیوں بنائے ہوئے ہیں؟میاں شہباز شریف جو آئینی اور قانونی طور پر یہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے فوج کے سربراہ کا تقرر کریں وہ بار بار لندن یاترا کے باوجود ابھی تک فیصلہ کیوں نہیں کر پا رہے؟

حکومتی اتحادی گومگو کا کیوں شکار ہیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟عمران خان کے بقول ’’رجیم چینج آپریشن‘‘اسی لئے عمل میں لایا گیا تھا کہ اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر کیا جائے،اگرچہ یہ دعویٰ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا تاہم ان کا یہ بیان عوام میں کافی حد تک مقبول رہا ہے،لیکن میری دانست میں اس رجیم چینج آپریشن کے دوران اگر کسی نے کچھ حاصل کیا تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی ہے۔

 آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کو پوری دنیا میں بطور وزیر خارجہ متعارف کروا دیا ہے اور ایک ایسا ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے جسے وہ خود بطور صدر پاکستان بھی حاصل نہیں کر سکے تھے،جبکہ اس آپریشن کے دوران اگر کسی نے کچھ کھویا ہے تو وہ پاکستان مسلم لیگ نون ہے، اگرچہ میاں شہباز شریف نے کچھ ذاتی مقدمات ختم کروا لئے ہیں لیکن ان کی عوامی مقبولیت کا گراف بہت نیچے چلا گیا ہے۔وہ حکومت حاصل کرنے کے باوجود نہ تو میاں نواز شریف کے مقدمات ختم کروا سکے اور نہ ہی انہیں پاکستان واپس لانے میں کامیاب ہوئے ۔

مہنگائی کے طوفان نے عوام کے ذہنوں میں ان کے خلاف ناپسندیدگی کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔جبکہ رجیم چینج آپریشن کا شکار ہونے والے عمران خان نے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل تو کرلی،پاکستان کے 55 مختلف شہروں میں بڑے جلسے بھی کرلئے،انہوں نے پاکستانی عوام کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لا بٹھایا،لیکن جب سے انہوں نے مسلح افواج کے کچھ افسران کو نام لے کر مخاطب کرنا شروع کیا تو اسی دن سے نہ صرف ان کی مقبولیت کو بریک لگ گئی بلکہ انکی مقبولیت روبہ زوال ہوگئی ۔

پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے جتنا زور آرمی چیف کی تقرری پر لگایا ہے اگر اتنی توجہ پاکستان کی معاشی حالت پر دی ہوتی تو نتائج مختلف ہوتے۔ اس وقت ملک کی معاشی ترقی کی رفتار سست ترین ہے۔مہنگائی 26فیصد سے زیادہ ہوچکی ہے مزید 13فیصد لوگ غربت کا شکار ہونے جا رہے ہیں۔پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ 

سیلاب سے ہونے والی 32ارب ڈالر کے نقصانات کے ازالے کیلئے 16ارب ڈالر کا حصول محال دکھائی دے رہا ہے۔بیرونی قرضوں میں گزشتہ ستمبر سے اب تک 12ہزار ارب کا اضافہ ہوچکا ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات میں کوئی بھی آرمی چیف مقرر ہو،شہباز حکومت برقرار رہے یا نہ رہے،عمران خان اقتدار میں واپس آئیں یا نہ آئیں ۔عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔عوام چائے کی پیالی میں اس طوفان سے کوسوں دور مہنگائی کے طوفان سے نبرد آزما ہیں۔ عوامی لاتعلقی ملکی سیاست کیلئے اچھا شگون نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔