بلاگ
Time 22 نومبر ، 2022

ڈاکٹر عارف علوی اور کیا کریں

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ دنوں لاہور میں دو تین جگہوں پر بڑی اہم گفتگو کی،تین جگہوں پر وہ ایک مکمل دانشور اور صلح جو آدمی کے روپ میں نظر آئے۔ میں یہاں تیسری جگہ پر ہونے والی گفتگو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا حالانکہ سب سے اہم باتیں وہیں ہوئیں۔ان باتوں کا تعلق سیاست سے ہے ملکی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی سے ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے اہم گفتگو رات کے اندھیرے میں ہوئی ،ظاہر ہے باتیں ہی ایسی تھیں کہ دن کی روشنی میں نہیں ہو سکتی تھیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اہم فیصلے اور اہم باتیں رات ہی کی تاریکی میں ہوئیں اگرچہ ان پر عملدرآمد دن کی روشنی ہی میں کیوں نہ ہوا ہو ۔

میں جن دو جگہوں پر ہونے والی گفتگو کا حوالہ دینے جا رہا ہوں ان میں پہلی بات چیت گورنر ہاؤس لاہور کی ہے، جہاں ڈیڑھ سو کے قریب صحافیوں، دانشوروں، اینکرز اور یو ٹیوبرز کے ساتھ صدر مملکت نے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد گفتگو کی ،دوسری جگہ منہاج یونیورسٹی ہے جہاں ڈاکٹر علوی نے طلبہ اور اساتذہ سے بڑی جاندار اور شاندار گفتگو کی ۔گورنر ہاؤس میں ہونے والی گفتگو میں انہوں نے کئی سیاسی سوالوں کے جواب دیئے مگر آڈیو اور ویڈیو پر ان کی گفتگو لاجواب تھی ۔صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے اپنا موبائل فون اٹھایا اور کہنے لگے ’’آج کل ریکارڈنگ کا بڑا رواج ہے اگر آپ اس فون پر میری گفتگو ٹیپ کریں تو ایک اہم بات سامنے آئے گی مثلاً جب ایک واقعہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیان کروں گا تو میرا انداز اور ہو گا پھر یہی واقعہ میں اپنے رفقائے کار کو سناؤں گا تو گفتگو کا انداز اور ہوگا بہن بھائیوں کو سنائوں گا تو بات اور طرح سے ہو گی اور پھر یہی واقعہ جب اپنی والدہ کو سنائوں گا تو لب ولہجہ بالکل مختلف ہوگا ،اب اگر کوئی وہ ٹیپ میری والدہ کو سنائے جو واقعہ میں نے اپنے دوستوں میں بیان کیا تھا تو میری والدہ کہیں گی کہ یہ تو میرا بیٹا ہی نہیں، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک ہی واقعہ انسان مختلف لوگوں کےسامنے مختلف انداز سے بیان کرتا ہے سو ریکارڈنگ نہیں کرنی چاہئے اور پھر اسے موبائل فون کے ذریعے پھیلانا بھی نہیں چاہئے‘‘۔

صدر مملکت کی بات بالکل درست ہے کیونکہ جب انسان دوستوں میں بات کرتا ہے تو بات کرتے وقت کھلے انداز میں بولتا ہے مگر جب وہی بات والدین سے کی جاتی ہے تو اس میں احترام اور عقیدت کا پہلو سامنے آ جاتا ہے۔

منہاج یونیورسٹی میں دوران خطاب ڈاکٹر عارف علوی کہنے لگے ’’جب میں 1973ء میں ماسٹرکرنے کے لئے مشی گن گیا تو ایک دو واقعات بڑے عجیب ہوئے میرے ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ ایک دن کہنے لگے کہ میرا ویک اینڈ ضائع ہو گیا ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ، آپ کا ویک اینڈ کیوں ضائع ہو گیا ہے تو کہنے لگے کہ میں نے اپنے باپ کو ایک اولڈ ہوم سے دوسرے اولڈ ہوم میں منتقل کیا ۔

میر ی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ایک شخص کا ویک اینڈ محض اس لئے ضائع ہو گیا کہ اس نے اپنے باپ کی خدمت کر دی ۔برٹرینڈ رسل نے ایک کتاب لکھی تھی ‘‘میرج اینڈ مورل ان سوسائٹی ‘‘ اس نے کہا تھا کہ جس طرح کا زمانہ آ رہا ہے اس میں اقدار پیچھے چلی جائیں گی ہرشخص آزاد ہو جائے گا اپنی زندگی اور آمدنی میں اتنا پھنس جائےگا کہ ہر چیز شادی، خاندان، چیلنج ہو جائے گا اب یہ چیزیں چیلنج ہو چکی ہیں کیا زمانہ آ گیا ہے کہ پاکستان میں آٹھ دس مہینے پہلے ایک قانون پاس ہوا کہ اگر کوئی اولاد اپنے ماں باپ کی قدر نہ کرے اورانہیں گھر سے نکالے تو ریاست مداخلت کرے گی یہ تو معاشرے کا کام تھا ،معاشرہ ایسی تربیت دیتا ہے، معاشرہ اہتمام کرتا تھا، خاندان والے اہتمام کرتے تھے کہ بے غیرت تم نے ایسا کام کیا کیوں ؟ریاست کو تو یہاں جانا ہی نہیں چاہئے تھا اس کا مطلب ہے کہ معاشرے میں بڑی تبدیلی ہوئی ہے ۔

بچو!ایک بات ذہن میں رکھو یہ تبدیلی ایک ذہنی تبدیلی ہے اسے ٹھیک رکھنے کے لئے آپ کمائیں، محنت کریں مگر جب محبتوں کو رشتوں سے نکال دو گے تو خود بھی پریشان رہو گے اور معاشرے میں بھی پریشانی کے ساتھ یہ بات آ جائے گی کہ میں اکیلا زندگی گزار سکتا ہوں ۔اب ہمارے ہاں 24فیصد لوگ 24گھنٹوں میں کسی ایک وقت سخت پریشانی کا شکار ہوتے ہیں جسے اسٹریس کہتے ہیں مشترکہ خاندانی نظام میں خوبصورتی تھی کہ ہر کوئی اپنی پریشانی شیئر کرلیتا تھا مگر اکیلا تو اپنی پریشانی بھی شیئر نہیں کر سکتا ایک اور حیران کن بات ہے کہ کالج جانے والے ساٹھ سے اسی فیصد طلبا انڈرا سٹریس ہیں علم کی تلاش کے اندر یہ ذہنی پریشانیاں کیسے آگئیں!ہم نے ان کو کیسی مشین پر ڈال دیا جس میں یہ مسلسل بھاگتے رہیں اور دماغی تنائو میں مبتلا رہیں یہ صرف روزی کے پیچھے بھاگیں گے پاکستان کو اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں توازن پیدا کیا جائے ‘‘۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جہاں سیاست کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں معاشرے کےسدھار کی باتیں بھی کر رہے ہیں ان کی کوشش ہے کہ پاکستان میں سیاست ہنگامہ آرائی کی نذر نہ ہو ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہو اور سیاسی استحکام کیلئے دوچار ماہ الیکشن پہلے کروانے میں حرج بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی کوشش ہی کرسکتے ہیں وہ اور کیا کریں بقول شعیب بن عزیز

ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن

کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔