فیکٹ چیک: عمران خان کا وزیر اعظم کی نواز شریف سے مشاورت کا 'آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی' کا دعویٰ غلط

عمران خان کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کالندن میں موجود نواز شریف سے مشورہ کرنا” آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی“ ہے۔

قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وزیراعظم نے اہم فوجی تقرری کے لیے نواز شریف سے مشاورت کرکے آفیشیل سیکرٹس ایکٹ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے یہ دعویٰ کیاہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستانی فوج کے نئے سربراہ کی تقرری پر اپنے بھائی اور پارٹی رہنما نواز شریف سے مشاورت کرکے آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 ءکی خلاف ورزی کی ہے۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

14 نومبر کو سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں ایک سیاسی جلسے سےویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔

اپنے اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ ” شہباز شریف پرائم منسٹرہے، کیا اسے نہیں پتہ کہ اتنا سینسٹیو معاملہ، جو کہ آرمی چیف کی سیلیکشن کا، یہ کیسے ایک مفرور۔۔۔اُس سے کیسے کنسلٹ کر سکتا ہے؟یہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ وائیلیشن ہے،اور اس کے اوپر ہم اپنے وکیلوں سے بات کر رہے ہیں، ہم اس پر ایکشن لیں گے۔ “

( عمران خان نے یہ بات چودہ منٹ اور نو سیکنڈ پر کی)

اس ویڈیو کو پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ پر اب تک9000سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے اور اسے بہت سارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بھی شیئر کیا ہے۔

حقیقت

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے، کیونکہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ایسی کوئی بھی پابندی نہیں ہے۔

کراچی کے سینئر وکیل صلاح الدین احمد نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ وزیراعظم کا کسی سے مشورہ کرنا ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

”یہاں کون سی خفیہ معلومات شیئر کی جا رہی ہیں؟ “ انہوں نے کہا ، ”اگر کچھ خفیہ معلومات شیئر کی جا رہی ہیں تو یہ الگ بات ہے، لیکن اگر وہ صرف [نواز شریف] سے مشورہ کر رہے ہیں اور ان کی رائے لے رہے ہیں تو پھر وزیر اعظم [فوجی سربراہ] کی تقرری سے پہلے ایسا کرتے ہیں۔“

اسلام آباد کے ایک سینئر وکیل ابوذر سلمان خان نیازی نے جیو فیکٹ چیک کو میسجز کے ذریعے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 243 کےمطابق یہ وزیر اعظم کے پاس مکمل طور پر یہ اختیار ہے کہ وہ آرمی چیف کی تقرری پر صدر کو مشورہ دے سکے۔

انہوں نے اپنے میسج میں لکھا کہ ”صدر وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند ہے ، وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اگر وہ [وزیراعظم] کسی سے مشورہ کر رہا ہے تو یہ قانون کے تحت ضروری نہیں ہے، لیکن مجھے [اس میں] کوئی پابندی بھی نظر نہیں آتی۔ تاہم اخلاقی طور پر یہ غلط ہے۔“

جیو فیکٹ چیک نے وزارت قانون و انصاف کی ویب سائٹ سے آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 ءکی ایک کاپی بھی حاصل کی۔ اس ایکٹ میں ایسی کوئی پابندی درج نہیں ہے، جو کسی وزیر اعظم کو اپنی پارٹی کے رہنما یا اشتہاری مفرور سے مشورہ کرنے سے روکتی ہو۔

ہمیں @GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔