پرانی تصاویر میں لوگ اتنے سنجیدہ کیوں ہوتے تھے؟

ایک پرانی تصویر / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
ایک پرانی تصویر / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

اگر آپ 19 ویں صدی یا 20 ویں صدی کے اوائل کی تصاویر دیکھیں تو یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ان میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ موجود نہیں۔

درحقیقت ان تصاویر کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ جیسے فوٹوگرافر کے سامنے لوگ مسکرانا بھول جاتے تھے۔

تو آخر کیا وجہ تھی کہ اس زمانے کی تصاویر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان افراد نے ابھی ابھی اپنی زندگی کی بدترین خبر سنی ہے؟

اس کی کوئی واضح وجہ تو معلوم نہیں مگر اس حوالے سے چند خیالات ضرور موجود ہیں جو اس رجحان کی وضاحت کرتے ہیں۔

ابتدائی ٹیکنالوجی کے لیے مسکراہٹ کو فلمانا مشکل تھا

فوٹوگرافی کے ابتدائی عہد میں لوگ مسکرانا پسند نہیں کرتے تھے / فوٹو بشکریہ thevictorianhistorian
فوٹوگرافی کے ابتدائی عہد میں لوگ مسکرانا پسند نہیں کرتے تھے / فوٹو بشکریہ thevictorianhistorian

اس عہد کی تصاویر میں چہروں پر مسکراہٹ نہ ہونے کی ایک عام وضاحت تو یہ ہے کہ انہیں کھینچنے کے لیے کافی زیادہ وقت درکار ہوتا تھا۔

اس زمانے میں کیمرے سے تصویر کھینچنے کے لیے ضروری تھا کہ لوگ جس حد تک ممکن ہو ساکت رہیں تاکہ فوٹو دھندلی نہ ہوسکے۔

اب چونکہ لوگوں کو خود کو ساکت رکھنا ہوتا تھا تو چہرے پر سنجیدگی کے مقابلے میں زیادہ وقت تک مسکراہٹ کو برقرار رکھنا مشکل محسوس ہوتا تھا۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں سنجیدہ رہنے کے پیچھے ثقافتی وجوہات بھی تھیں، کیونکہ لوگ فوٹوز کو نجی کی بجائے عوامی تصور کرتے تھے اور اس کے مطابق اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے تھے۔

پینٹنگز کا اثر

اس زمانے میں فوٹوگرافی کو پینٹنگ پورٹریٹ کا متبادل سمجھا جاتا تھا / فوٹو بشکریہ vox
اس زمانے میں فوٹوگرافی کو پینٹنگ پورٹریٹ کا متبادل سمجھا جاتا تھا / فوٹو بشکریہ vox

موجودہ عہد میں تو فوٹوگرافی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو کو ریکارڈ کرلیں مگر اس ٹیکنالوجی کے ابتدائی عہد میں اسے پینٹنگ پورٹریٹ سے منسلک کیا جاتا تھا۔

اس زمانے میں پورٹریٹ کے لیے مسکراہٹ کو نامناسب تصور کیا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ مونا لیزا کی پینٹنگ عرصے سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

سنجیدہ بزنس

اکثر انتقال کرجانے والے افراد کے ساتھ فیملی پورٹریٹ بنایا جاتا تھا / فلیکر فوٹو
اکثر انتقال کرجانے والے افراد کے ساتھ فیملی پورٹریٹ بنایا جاتا تھا / فلیکر فوٹو

19 ویں میں لوگوں کا فوٹوگرافی میں تصور ہمارے دور کے مقابلے میں مختلف تھا، مثال کے طور پر متعدد تصاویر درحقیقت خاندان کے کسی فرد کے مرنے (خاص طور پر جوان موت پر) لی گئی تھیں جس کی لاش کے ساتھ خاندان کے افراد تصویر کھچواتے۔

اسے پوسٹ مارٹم فوٹوگرافی کہا جاتا تھا جس کا مقصد کسی پیارے کی تصویر کو مستقبل کی نسلوں کے لیے محفوظ کرنا تھا۔

مہنگی تصاویر

اس زمانے میں تصویر کھچوانا بہت مہنگا تھا / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
اس زمانے میں تصویر کھچوانا بہت مہنگا تھا / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

فوٹوگرافی کے ابتدائی دور میں بہت کم افراد ہی فوٹوز کھینچ سکتے تھے اور ان میں سے بھی بہت کم کو یہ موقع گھر پر ملتا تھا۔

اس کے لیے لوگوں کو کسی فوٹو اسٹوڈیو جانا پڑتا تھا اور تصاویر کافی مہنگی ہوتی تھیں، بیشتر افراد کو تو زندگی میں ایک بار ہی تصویر کھچوانے کا موقع ملتا تھا تو اس لیے وہ سنجیدہ رہنا پسند کرتے تھے۔

کھل کر مسکرانے کو پاگل پن سے منسلک کیا جاتا تھا

اس زمانے میں کھل کر مسکرانے کو پاگل پن کی نشانی سمجھا جاتا تھا / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
اس زمانے میں کھل کر مسکرانے کو پاگل پن کی نشانی سمجھا جاتا تھا / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

19 ویں صدی میں منہ کھول کر مسکرانے کو ذہنی عدم استحکام کی نشانی تصور کیا جاتا تھا۔

کچھ لوگ اس سے ڈرتے تھے

کچھ افراد تو کیمرے کے سامنے خوفزدہ ہوجاتے تھے / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
کچھ افراد تو کیمرے کے سامنے خوفزدہ ہوجاتے تھے / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

کسی تصویر کے لیے پوز بنانا کچھ لوگوں کو خوفزدہ کردیتا تھا اور ابتدائی عہد میں کچھ پورٹریٹ میں چہرے پر خوف کے تاثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

تو لوگوں نے مسکرانا کیسے شروع کیا؟

ایک کمپنی کے نتیجے میں لوگوں نے تصاویر میں مسکرانا شروع کیا / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
ایک کمپنی کے نتیجے میں لوگوں نے تصاویر میں مسکرانا شروع کیا / فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

20 ویں صدی کی تصاویر میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کوڈک کے نتیجے میں آئی۔

اس کمپنی کو کیمروں اور فلم میں اجارہ داری حاصل ہوگئی تھی اور وہ فوٹوگرافی کو سیاحت اور تعطیلات سے منسلک کرنا چاہتی تھی، اس کے لیے ایسے اشتہارات بنائے گئے تاکہ لوگ تصویر کھچواتے ہوئے مسکرائیں۔

1920 اور 1930 کی دہائی میں ایسا ہونا شروع ہوا کیونکہ اس عہد میں فوٹوگرافی کافی سستی ہوگئی تھی اور اسٹوڈیو جانے کی بجائے گھروں پر تصاویر کھینچنا آسان ہوگیا تھا۔

مزید خبریں :