25 نومبر ، 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کو بطور رکن اسمبلی نااہل قرار دینے کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے نااہلی کس قانون کے تحت ہوگی؟ پانچ سال تو اسمبلی کی جاری مدت کیلئے نااہلی ہوتی ہے، اس اسمبلی سے تو عمران خان خود استعفیٰ دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے اگر نااہلی کا فیصلہ دینا ہے تو کس بنیاد پر دے گی؟ ماضی میں دو متضاد آرا رہی ہیں کہ اس کا فورم الیکشن کمیشن ہے یا ہائی کورٹ؟ اس پر آرڈر پاس کریں گے کہ اس کیس کا فورم کون سا ہونا چاہیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایک شہری محمد ساجد کی درخواست پر سماعت کی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عمران خان نے یو کے میں رہائش پذیر بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کی گارجین شپ کیلئے ضروری اقدامات کیے لیکن کاغذات نامزدگی میں یہ معلومات چھپائیں۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس متعلق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن کے فیصلے بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جو فیصلے ہیں وہ لائیں، فرض کریں کہ ہم اس کیس میں نوٹس کر دیتے ہیں تو پھر ہم اس فیکٹ کا جائزہ کیسے لیں گے؟
وکیل نے کہا الیکشن ایکٹ کے اندر بھی ہے عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ہائی کورٹ نے اگر نااہلی کا آرڈر دینا ہے تو کس بنیاد پر دے گی؟ اس عدالت نے فیصل واوڈا کیس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا، یہ بتائیں کہ عمران خان کے کیس میں کس قانون کے تحت نااہلی ہو گی؟
چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی بیان حلفی غلط ثابت ہوا تو بندہ صادق اور امین نہیں رہتا، اگر کوئی غلط بیان حلفی نکلا اس کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کا معاملہ تو سپریم کورٹ میں بھی ہے۔
وکیل نے کہا سپریم کورٹ میں معاملہ پانچ سال کی نااہلی کی طرف جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے پانچ سال تو اسمبلی کی جاری مدت کیلئے نااہلی ہوتی ہے، اس اسمبلی سے تو عمران خان خود استعفی دے چکے ہیں۔