28 نومبر ، 2022
سونے اور تانبے کی کان سے متعلق ریکوڈک معاہدے پر سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر 15 دسمبر تک فیصلہ نہ آیا تو پاکستان پر 10 ارب ڈالر کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام پر پاکستان کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان 90 کی دہائی میں دریافت ہوئی، جس پر غیرملکی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے بلوچستان حکومت سے سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا۔
معاہدے میں قانونی خلل رہ جانے کی بنیاد پر 2013 میں سپریم کورٹ نے معاہدہ کالعدم قرار دے دیا اور غیرملکی کمپنی اینٹو فیگسٹا نے پاکستان کے خلاف دوعالمی فورمز سے رجوع کرلیا۔
2019 میں سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے لیے قائم بین الاقوامی مرکز نے پاکستان پرتقریبا ساڑھے 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا، اسی معاملے پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے بھی پاکستان کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے تاہم فیصلے میں جرمانے کا تعین نہیں کیا گیا، قانونی ماہرین کے مطابق یہ جرمانہ تقریباً 3 ارب ڈالر کا ہوگا۔
اس طرح پاکستان پر مجموعی جرمانہ 10 ارب ڈالر کے قریب ہو جائے گا جو ملکی زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر سے کہیں زیادہ ہے۔
مارچ 2022 میں غیرملکی کمپنی بیرک گولڈ نے جرمانے کے سیٹلمنٹ کے ساتھ ریکوڈک منصوبے میں آدھی سرمایہ کاری کی آمادگی ظاہرکی، بقایا 50 فیصد سرمایہ کاری پاکستان نے کرنا تھی، اس سلسلے میں پاکستان کو عالمی عدالتوں سے جرمانے کی ادائیگی میں 15 دسمبر 2022 تک اسٹے دیا گیا ہے۔
سرمایہ کار ٹیتھیان کاپرکمپنی اور بیرک گولڈ کمپنی نے حفظِ ماتقدم کے طور پر ریکوڈک معاہدے میں ملنے والی چھوٹ پر قانون سازی اور سپریم کورٹ سے توثیق کا مطالبہ کیا، اس پر وفاقی حکومت نے غیرملکی سرمایہ کاری بل 2022 بنایا اور سپریم کورٹ کی رائے کے لیے صدرِ پاکستان نے 18 اکتوبر کو ریفرنس بھیج دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ اب تک ریکوڈک ریفرنس پر 15 سماعتیں کرچکا ہے، سپریم کورٹ کی رائے کے بعد قومی اور بلوچستان اسمبلی میں غیرملکی سرمایہ کاری کی حتمی قانون سازی ہوگی، پھر 15 دسمبر کو ملکی تاریخ کی 9 ارب ڈالر کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کا معاہدہ ہوسکے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر معاہدہ طے پاگیا تو پاکستان کو آئندہ 47 سال میں 32.7 ارب ڈالر کا مالی فائدہ پہنچے گا لیکن معاہدہ نا ہونے کی صورت میں پاکستان تقریباً 10 ارب ڈالر جرمانے کی وجہ سے ڈیفالٹ میں جاسکتا ہے۔