02 نومبر ، 2022
سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 10 ارب ڈالرز کا جرمانہ کسی صوبائی ادارے نہیں، ملک کے خلاف ہے، عالمی عدالت کا پاکستان پر عائد جرمانہ نیوکلیئر بم ہے۔
سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نےکہا کہ رولز میں نرمی کا معاملہ پچھلے معاہدے میں ہوتا تو عدالت اسے کالعدم قرار نہ دیتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ریکوڈک اورکان کنی کے دیگر رولز صوبائی حکومت کا اختیار ہیں،کیا وفاق صوبائی قوانین میں ترمیم کا مجاز ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کیا بلوچستان حکومت نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے کان کنی کے رولزمیں نرمی کی تھی؟
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے پچھلے معاہدے کے لیے رولزمیں نرمی کی، ریکوڈک منصوبے سے جڑے ہر معاملے پر مستعدی اور شفافیت سےکام لیا جائےگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شفافیت کا حال یہ ہےکہ کابینہ میں کچھ فائلیں کھولے بغیرہی منظوری دے دی جاتی ہے، 2013 کے ہمارے فیصلے میں کہیں بھی بین الاقوامی کمپنی کی کرپشن کا ذکر نہیں، بلوچستان حکومت کے پاس سونا ریفائن کرنے کی گنجائش نہیں تھی، اس کا فائدہ بین الاقوامی کمپنی نے اٹھایا۔
انہوں نے مزیدکہا کہ افغانستان نے بدامنی کے دنوں میں بھی پاکستان سے معاہدے کیے۔
کیس کی مزید سماعت 7 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔