01 دسمبر ، 2022
آرمی بینڈ کی خوبصورت دھنیں بج رہی تھیں۔پاکستان آرمی کی کمان میں تبدیلی کی تقریب شروع ہو چکی تھی ۔صحافیوں کے انکلوژر میں ڈاکٹر شاہد مسعود کو دیکھ کر مجھے بہت سے واقعات یاد آنے لگے۔یہ وہ واقعات ہیں جو ان چھ برسوں میں پیش آئے جب جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستانی فوج کے سربراہ تھے ۔یہ واقعات باجوہ صاحب بھول سکتے ہیں لیکن ہم نہیں بھول سکتے ۔
2018ء کے دھاندلی سے بھرپور الیکشن کے بعد عمران خان کو وزیر اعظم بنوایا گیا تو کچھ عرصے کے بعد معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کو پی ٹی وی کے فنڈز میں گڑبڑ کے ایک کیس میں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھجوا دیا گیا۔ایک دن میں انہیں ملنے اڈیالہ جیل گیا تو پتہ چلا کہ انہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے ۔
اگلے ہی دن میں وزیر اعظم عمران خان کے پاس پہنچ گیا۔میں نے گزارش کی کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو ایف آئی اے ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرتی ہے ان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ عدالت کریگی لیکن آپ انہیں ہتھکڑیاں تو نہ لگایا کریں۔خان صاحب نے پہلے تو حیرانی سے پوچھا ’’شاہد مسعود کب پکڑا گیا ؟مجھے تو پتہ ہی نہیں ‘‘ پھر فوراً ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے فون پر بات کی اور کہا کہ حامد میر پہلی دفعہ کوئی کام لیکر آیا ہے آپ ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہتھکڑیاں نہ لگایا کریں ۔
میں مطمئن ہو کر واپس آگیا دو دن بعد ڈاکٹر صاحب کو پھر عدالت میں پیش کیا گیا تو جانتے ہیں کیا ہوا؟ پہلے تو ڈاکٹر صاحب کے ایک ہاتھ میں زنجیریں ڈالی جاتی تھیں میری سفارش کے بعد دونوں ہاتھوں میں زنجیریں ڈال دی گئیں۔ ظاہر ہے مجھے بہت شرمندگی ہوئی میں نے معلوم کیا کہ وزیر اعظم کے احکامات کو اتنے رعونت آمیز طریقے سے نظر اندازکیوں کیا گیا؟ مجھے بتایا گیا کہ آپ نےغلط آدمی سے سفارش کردی آپ کو وزیراعظم سے نہیں آرمی چیف سے بات کرنی چاہئے تھی۔
چند دن کے بعد افغانستان کی صورتحال کے بارے میں ایک بریفنگ تھی جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود تھے۔ میں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کیلئے بات کی تو ارشد شریف نے بھی میری تائید کردی۔ باجوہ صاحب نے پہلے تو ناگواری کا اظہار کیا اور ڈاکٹر شاہد مسعود پر خوب غصہ جھاڑا اور پھر کچھ دیر بعد نرم پڑگئے۔ چند دن بعد ڈاکٹر صاحب کو رہا کردیا گیا۔ اس کے بعد بھی ایسے کئی واقعات پیش آئے جن کے بارے میں عمران خان لاعلمی کا اظہار کرتے۔
عرفان صدیقی گرفتار ہوئے تو عمران خان نے مجھے پیغام بھیجا کہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تو کہا گیا کہ وزیراعظم نے کبھی کسی صحافی کو اغوا کرنے یا نوکری سے نکالنے کا حکم نہیں دیا۔ 29 نومبر کو پاکستان آرمی کی کمان میں تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے سوشل میڈیا پر جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کردیا اور یہ تاثر دیا کہ پاکستان کے تمام مسائل کے ذمہ دار باجوہ صاحب تھے۔ یہ درست نہیں ہے کچھ معاملات میں عمران خان براہ راست باجوہ صاحب کے ساتھ شریک گناہ ہوتے تھے اور ایسا بھی ہوتا کہ خان صاحب اپنے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ذریعہ کوئی واردات کراتے اور ہم اس کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو سمجھتے۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر جنرل باجوہ نے نہیں شہباز شریف نے بٹھایا۔ اگر شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے خلاف بغاوت کردیتے تو 2018ء میں انہیں وزیراعظم بننا تھا۔ شہباز شریف کے انکار کے بعد جنرل باجوہ کے پاس کوئی چوائس نہ رہی، انہوں نے عمران خان کو جیسے تیسے اکثریت تو دلوا دی لیکن حکومت سازی کیلئے نمبرز پھر بھی پورے نہ تھے۔ عمران خان کو مرکز اور پنجاب میں سارے نمبرز جنرل باجوہ اور فیض نے پورے کرکے دیئے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان کو جنرل باجوہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے اچھے آرمی چیف لگتے تھے جن کے بارے میں خان صاحب کی تعریفیں سن کر فنا بلند شہری کا یہ شعر یاد آتا؎
میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر
جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی کام ہی کر گئی
آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
عمران خان اور جنرل باجوہ نے مل کر کرتار پور راہداری کھولی ۔کشمیری حریت پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے بار بار خبردار کیا کہ مودی سرکار پر اندھا دھند اعتماد مت کرو لیکن گیلانی صاحب کی کسی نے نہ سنی ۔کوئی مانے نہ مانے لیکن تاریخ میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ جب 5اگست 2019ء کو مودی سرکار نے مقبوضہ جموں وکشمیر پر آئینی قبضہ کیا تو عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم اور جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف تھے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور معاہدہ عمران خان اور جنرل باجوہ نے مل کر کیا ۔عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم مسلم خان کو صدر عارف علوی سے معافی بھی عمران خان نے دلوائی لیکن جب امن قائم نہ ہوا تو ذمہ داری فوج پر ڈال دی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ جو بھی ہوا اس میں جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان ساتھ ساتھ تھے ۔علی وزیر اور گلالئی اسماعیل کے خلاف تمام کارروائی عمران خان کی مرضی سے ہوئی ۔آج جو لوگ کینیا میں ارشد شریف کے قتل کا الزام جنرل باجوہ پر لگاتے ہیں وہ سویڈن میں ساجد بلوچ اور کینیڈا میں کریمہ بلوچ کے پراسرار قتل پر خاموش نہ رہتے تو شاید آج پاکستان میں صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ وہ کچھ نہ ہو رہا ہوتا جس کے باعث تحریک انصاف نے 29نومبر کو یوم نجات قرار دیا۔اگر تحریک انصاف ابصار عالم اور اسد طور کے زخموں کا مذاق نہ اڑاتی تو آج اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر واویلے کی نوبت نہ آتی۔
یہ عجیب بات ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ تو تحریک انصاف والے خود لیتے ہیں اور فوج کو بدنام کرنے کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرار دیتے ہیں ۔یہ مت سمجھیں کہ اچھے کاموں کا کریڈٹ آپ لے جائیں گے اور بدنامی صرف باجوہ صاحب کو ملے گی۔آپ کو اچھائی اور برائی دونوں میں حصہ دار بننا پڑے گا۔آپ نے جو نفرتوں کی آگ بھڑکائی ہے اس میں صرف دوسروں کے گھر نہیں جلیں گے بلکہ اس آگ کا مزا آپ کو بھی چکھنا پڑے گا ابھی وقت ہے مزید آگ مت لگائیے ورنہ زیادہ نقصان آپ ہی اٹھائیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔