فرینکسٹائن کا’’عفریت‘‘

’مانتا ہوں آپ نے سازش نہیں کی ، مگر روک تو سکتے تھے‘‘،چند دن پہلے، عمران خان کا جملہ وطنی سیاسی تاریخ کا نچوڑ۔ سات دہائیوں کی کہانی اقتدار چھینا بھی گیا، مسند اقتدار پر بٹھایا بھی گیا۔اس بار اسٹیبلشمنٹ نے’’شوق گُل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دی‘‘۔ میری شیلے(Mary Shelley) کا 1818میں لکھا ناول فرینکسٹائن (FRANKENSTEIN) ایک کیمیا دان کی کہانی، جس نے لیب میں ایک ایسا انسان تخلیق دیا جس کو فلاحِ انسانیت اور علم و حکمت کا منبع بننا تھا۔ مکمل ہوا تو بھیانک وحشی عفریت بن کر سامنے آیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی لیب میں عمران خان کی تخلیق ملتی جلتی روح فرسا کہانی ہی ہوئی ہے۔ عمران خان کے مردہ سیاسی جسم میں روح پھونک کر ایک نجات دہندہ اورمسیحا تخلیق کیا گیا۔ آج وہ عفریت بن کر اپنے خالق کا گریبان دبوچ چکا ہے۔ مضبوط ادارہ آج شش و پنج میں کہ اپنی تخلیق سے کیسے نبٹا جائے۔ ایسے وقت میں جب کہ مملکت کو تاریخ کے بدترین سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی بحران کا سامنا ہے،عمران خان ریاست کی چولیں ہلانے پر تلا ہے۔ عمران خان سے نبٹنے کا کوئی واضح لائحہ عمل متعین کرنا ناممکن نہیں تو انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہے۔

2008 الیکشن کا بائیکاٹ ، عمران خان کے سیاسی مستقبل پر گرہن چھوڑ گیا۔ ’’ خاتمہ بالخیر‘‘ پر مہرثبت ہو ئی۔تفصیل میں جائے بغیر 2008 تا 2011 کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ اور مخلوط حکومتوں نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان میں جان ڈالنے کے لئے اُکسایا۔

26 جولائی2018 کا سورج ’’ فتحٔ مبین‘‘ کے طور پر سامنے آیا۔نجات دہندہ کے ظہور پر اسٹیبلشمنٹ کااِترانا تو بنتا تھا۔ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس پی آرنے قوم کو’’ وتعزمن تشاء‘‘کی نویدسنائی ۔ اسٹیبلشمنٹ کے وہم و گمان میں نہ تھاکہ ایک دن اُن کی اپنی تخلیق اُن کو بے دست و پا بنا دے گی۔ انسانی تاریخ ، ایسے زعیم، جذبات انگیز اور بر انگیختہ خطیب رہنما، (DEMAGOGUES) جو جھوٹ، فریب کاری سے عوام الناس کے جذبات بھڑکا کر اُن کو اپنی سحر انگیز شخصیت کا گرویدہ بنا لیتے ہیں، بھری پڑی ہے۔ اپنے ماننے چاہنے والوں کے دل و دماغ کو سحرانگیز رکھتے ہیں ۔ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بغیر تگ و دو کے منوالیتے ہیں۔

ہٹلر، مسولینی، آج کل ٹرمپ، ہمارے ہاں عمران خان تمام رہنما DEMAGOGUES کی تعریف پر حرف بحرف پورا اُترتے ہیں۔سوشل میڈیا جو کہ انسانی علم اور فہم فراست کو چار چاند لگانے کے لئے وجود میں آیا۔ پچھلی دہائی سے ایسے رہنماؤں کے استعمال میں، ان کے جھوٹ اورفریب کی دھاک بٹھا رہا ہے۔معاشرے میں تقسیم در تقسیم باہمی ٹکرائو کو فروغ دے رہا ہے۔پاکستان کے اندر غریب،بے کس، بے آسرا لوگوں کی تکالیف سانجھی اور مسائل مشترک۔ دوسری طرف اشرافیہ کا عمومی لائف اسٹائل اور ان کے قبضہ میں وسائل بھی یکساں ، آسودگی عام ہے۔

عمران خان جس شور و غوغا سے لوگوں کو ان کے مسائل تکالیف بتارہے ہیں ، اسی جوش و خروش سے اشرافیہ کی سہولتوں، لائف اسٹائل کو جھوٹ اور مبالغہ کی حد تک بڑھا چڑھا کر بتارہے ہیں۔ اسی سانس میں یقین دلارہے ہیں کہ غریب مفلوک الحال اس لئے کہ اشرافیہ نے ملکی دولت لوٹ کر اپنے بینک بھررکھے ہیں۔قطعٔ نظر اس کے کہ کتنی حقیقت ہے ، جمہوریت کو کمزور کرنے میں مؤثر ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ اسلام آباد600 کنال کے گھر میں رہنے والا دولت کی ریل پیل کے ساتھ عمران خان سیاستدانوں کے محلات اور دولت اُجاگر کرکے عوام الناس کو جمہوری نظام کے خلاف اُکساتا پھرتا ہے۔ حیف!انہوں نے ایسا بیانیہ سر جوڑ کر تشکیل دیا۔

اگرچہ عمران خان 45سال پہلے اپنی کرشماتی شخصیت کے ڈنکے چا رسُو بجوا چکا تھا، تاہم سیاست کو پُراثر اور جادوئی بنانے میں یکسر ناکام رہا۔موصوف کا شروع سے عقیدہ ایک ہی فوج کی مدد کے بغیر سیاسی ساکھ قد کاٹھ صفر بٹہ صفررہنا ہے۔پاپڑ بیلے کہ اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر بن کر سیاست میں نام مقام پیدا کروں۔ عزت نفس سے لے کر اقدار اصول سب پامال ہو ئے۔بالآخر ایسا دن دیکھنا نصیب ہوا۔ جب بے نظیر نواز شریف نے چارٹر آف ڈیمو کریسی پر معاہدہ کیا۔ بعد ازاں 2008 میں دونوں جماعتوں کی حکومتی شراکت داری بنی تو اسٹیبلشمنٹ نے فارغ البال عمران خان کے سیاسی مردے میں جان ڈالنے کی ٹھانی۔اس دوران میڈیا پروپیگنڈا کا بہیمانہ استعمال ہوا ۔2011میں پہلی دفعہ سیاسی قد کاٹھ کسی خاطر میں آیا۔

اقتدار میں آئے تواسٹیبلشمنٹ پر آشکار ہواکہ نجات دہندہ ، مسیحا سمجھ کر جو بت تراشا گیا، وہ در حقیقت ایک خو فناک عفریت ہے۔ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کما حقہ پوری صلاحیت اور خواہش رکھتا ہے۔عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئےاسٹیبلشمنٹ نے مملکت کے آئین ، قانون اور نظام کی اکھاڑ پچھاڑ کر دی۔

ماضی بعید اور قریب میں حکومتوں کے’’ بناؤ اورہٹاؤ ‘‘میں ایک پردہ، شرم وحیا اور کچھ جھجک رہتی تھی، مبادا غیر آئینی وغیر قانونی سر گرمی نظر نہ آجائے۔عمران خان کی تشکیل کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ ادارے سب دھڑلے سے آئین کی دھجیاں اڑا تے نظر آئے عمران خان کی تخلیق میں اور مسند اقتدار سونپنے اور قائم رکھنے میں مملکت کو قریب المرگ پہنچایا۔ آج عمران خان نے پارلیمان، عدلیہ، سب اداروں کو چاروں شانے چت، اسٹیبلشمنٹ اور مخالفین کو بے وقعت اوربے وقار کر رکھا ہے۔لواحقین ،معتقدین عمران خان کے جو منہ سے نکلا ہر لفظ قول فیصل اور مخالف سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ہر بات جھوٹ سمجھی جاتی ہے۔عمران خان کاظہور آج ایک HORROR کہانی بن چکا ہے ۔آج مملکت کس حال میں ہے، اصل مجرم کون ہیں؟ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی خواہشیں کہ گمنامی میں چلے جائیں ،پوری نہیں ہو سکتیں۔

2018 کے کرداروں کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟نواز شریف نے اکتوبر2020 کی گجرانوالہ تقریر میں اس تباہی کی نشاندہی کی اور جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔افسوس اتنا کہ ملکی تاریخ میں کسی آرمی چیف کا بیگج اتنا نہیں جو جنرل عاصم منیر کو ملاہے۔عمران خان کے حلقےنے جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کو اپنے لیے زہر قاتل سمجھا ، متنازع بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ 26 نومبر کے احتجاج نے گو حوصلے پست رکھے، جنرل عاصم منیر کی ذات کو چیف بننے سے پہلے متنازع بنانے میں کسر نہ چھوڑی ۔

انشااللہ !کالم کو اگلے ہفتے سمیٹوں گاکہ عمران خان کی منفی سیاست کا انجام ، اس سے نبٹنے کے ممکنہ طریقے اور جنرل عاصم منیر سے قوم کی توقعات کیا ہوں گی؟ یار زندہ صحبت باقی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔