بلاگ
Time 05 دسمبر ، 2022

یہ ضدی سیاست دان!

پہلے عمران خان ضد پراڑے تھے تو اب حکمراں اتحادی ضد پر اتر آئےہیں۔ اگر عمران خان نے اپنی ضد چھوڑ کر حکومت کو مذاکرات کیلئے دعوت دےدی تھی تو اتحادیوں کو بھی خان کے اس مثبت یو ٹرن پر مثبت انداز میں سوچنا چاہئے تھا۔

افسوس کہ وزیراعظم کے ساتھ اجلاس میں عمران خان کی مذاکرات کی دعوت کا جائزہ لینے کے بعد ن لیگی وزیروں نےگویا عمران خان کو دھتکار دیاہے۔ اس عمل سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ایک دوسرےسے ضد کا مقابلہ کیا جا رہا ہے، ایک دوسرے کو ذلیل کئے جانے کی ریس لگی ہے۔خدارا!کچھ ملک کا بھی سوچ لیں۔

 پہلے عمران خان کہتے رہے کہ’’ پاکستان کے دشمنوں سے بات کر لوں گا لیکن ان چوروں ڈاکوئوں سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ اب اگر عمران خان اپنی بات ،جو غلط تھی،سے پیچھے ہٹےہیں تو حکمرانوں اور ن لیگیوں کو سنجیدگی دکھانی چاہئے تھی، ملک کا سوچنا چاہئےتھا۔ اگر عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران اپوزیشن سے لڑتے لڑتے اور ’’چور ڈاکو، چور ڈاکو ‘‘کی گردان الاپتے وقت ضائع کیا، ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام مہیا کرنے کا سنہری موقع کھو دیا تو موجودہ حکومت بھی اُسی روش پرکیوں چل رہی ہے؟ بات چیت کے ذریعے سیاسی اور معاشی استحکام کا حصول اپوزیشن سے زیادہ حکومتوں کی خواہش ہوتی ہے۔

 یہ سب اگر عمران خان اپنے دور حکومت میں نہیں سمجھے تو موجودہ حکمراں خصوصاً ن لیگ کی عقل پر کیوں پردے پڑ گئے ہیں۔ ؟عمران خان نے اگر واقعی پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں توڑ دیں اور حکمراں اتحاد اس بات پر قائم رہا کہ نہ تو سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں توڑیں گے اور نہ ہی وزیراعظم قومی اسمبلی کو تحلیل کریں گے تو ایسے میں سیاسی عدم استحکام مزید کتنا بڑھ جائے گا ؟ اس سے بھی اہم اور فکرانگیزبات یہ کہ معیشت کا کیا بنے گا؟ پاکستان کے معاشی حالات پہلے ہی بہت گمبھیر ہیں، سیاسی عدم استحکام میں اضافے کا مطلب معیشت کی مزید تباہی ہے، جو دراصل پاکستان اور عوام دونوں کیلئے بہت بُری خبر ہے۔ 

ویسے تو عمران خان نےانتخابات کی شرط پر حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ میثاق معیشت، الیکشن ریفارمز سمیت ،گڈ گورننس اور دوسری اصلاحات پر بھی حکومت سے بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ضد،اناپرستی اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی سیاست نے ہی ملک کی یہ حالت کی ہے۔ ن لیگ اور پی پی پی کو اگر بار بار حکومتیں ملیں تو اُنہوں نے جو کرنا چاہئے تھا وہ نہ کیا، یہی حال عمران خان کا تھا۔ اس ملک کو میثاق معیشت کی اشد ضرورت ہے، پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو اسے اپنے گورننس ماڈل کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

 اداروں کی مضبوطی، ادارہ جاتی اصلاحات، سول بیوروکریسی اور پولیس کو غیر سیاسی کرنا، قانون کی عملداری، میرٹ اور شفافیت یہ وہ گورننس کی بنیادیں ہیں جن کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر اتفاق رائے سے اصول مرتب کرنا پڑیں گے جس کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔

 اگر الیکشن جون میں کر وا دیے جائیں ،جس کیلئےطرفین کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا تو آنے والے تین چار مہینوں میں بات چیت کے ذریعے ہم اپنی معیشت اور طرز حکمرانی کے fundamentals کو ٹھیک کر سکتے ہیں جو پاکستان اور عوام دونوں کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔ اگر عمران خان موجودہ حکومت کو گرانے کے چکر میں ہی رہے اور حکمراں اتحاد اپنے آپ کو بچانے اور عمران خان کی سیاسی چالوں کو ناکام بنانے میں ہی لگا رہا تو معیشت بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔اس کے برعکس دونوں اطراف اگرمذاکرات کی میز پر بیٹھتے اورمعاملات کے سدھار کیلئے اتفاقِ رائےکا اعلان کرتے ہیں تو اس سے ملک کو سیاسی استحکام ملے گا جو معیشت کی بہتری کیلئے ازحد ضروری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔