07 دسمبر ، 2022
سال 2022 صرف سیاست کیلئے ہی نہیں صحافت کیلئے بھی اچھا سال نہیں رہا۔ صحافتی دنیا کے دو بڑے نام ارشاد رائو اور عمران اسلم ہم سے بچھڑ گئے۔ دونوں ہی چیف ایڈیٹر اور گروپ صدر کے منصب پر فائز رہے ایک کا تعلق اردو سے اور دوسرے کا انگریزی صحافت سے تھا۔ دونوں کا دور جنرل ضیا الحق کا دور ہے۔ البتہ ارشاد رائو نے اپنے رسالے الفتح کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں او رکئی بار ان کا رسالہ بند ہوا۔
عمران اسلم جیو اور دی نیوز کے گروپ صدر تھے وہ بھی تقریباً اسی سوچ کے حامل تھے جس سوچ اور نظریہ کے ارشاد راؤ تھے۔ عمران سے میری پہلی ملاقات 1983میں ڈان گروپ کے شام کے اخبار ’’دی اسٹار‘‘ میں ہوئی۔ جہاں سے انہوں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز ہی بحیثیت ’’مدیر‘‘ کیا اور چند برسوں میں ہی اپنا لوہا منوالیا اور سرخیوں کو ایک نیا انداز دیا مگر وہ صرف صحافی ہی نہیں ایک اچھے اداکار، صداکاراور جاندار لکھاری بھی تھے ان کی سیاسی سوچ روشن خیالی کی طرف مائل تھی ،وہ سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد تھے، جس کے واقعات وہ اکثر سناتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مارچ، 1971 کا فوجی آپریشن بہت بڑی ’’فوجی غلطی‘‘تھا۔
بہرحال سیاست اور صحافت دونوں نے ہی برا وقت دیکھا ہے اور اب بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں لیکن ایک امید البتہ بندھی ہے کہ فوج اب سیاسی معاملات میں قطعی مداخلت نہیں کرے گی۔ شاید اب آئی ایس پی آر کی اس طرح پریس کانفرنس سننے کو نہ ملے، سنا ہے ٹرانسفر پوسٹنگ کی خبریں بھی شاید نمایاں جگہ نہیں پائیں گی۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو یہ آگے چل کر جمہوریت کو مضبوط کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا مگر کیا سیاسی پروجیکٹ بھی بند ہونگے۔
پاکستان کی سیاست میں کئی تجربات ہوئے او ر نئے نئے پروجیکٹ لائے گئے مختلف سیاسی جماعتوں اور گروپس کی شکل میں مقصد تقسیم در تقسیم تھا اور یوں سیاست بے معنی اور جمہوریت کمزور ہوتی چلی گئی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی تحریک کا کوئی اور نتیجہ نکلا ہویا نہیں مگر بہت سے چہرے بے نقاب ہو گئے اور ثابت ہوا کہ 2018 میں کیا ہوا تھا اور اس کے بعد سے آج تک کیا ہو رہا ہے۔
ایسی ہی ایک صورتحال 1990کے الیکشن کے بعد کھلی جب مہران بینک یا یوں کہیں اصغر خان کیس سامنے آیا کہ کس طرح ISI نے سیاست دانوں اور صحافیوں میں رقوم تقسیم کیں اور ثابت ہوا کہ وہ الیکشن بھی دھاندلی زدہ تھے۔ ویسے غور کریں تو اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گاکہ یہاں کبھی ایک جماعت کو نیچا دکھانےکیلئے دوسری جماعت کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ بائیں بازو کی تین جماعتوں کو اسی طرح ختم کیا گیا۔ 50کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی، 1954میں جگتوفرنٹ کی حکومت توڑ دی گئی اور 70کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر بائیں بازو کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔
مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا تو بھٹو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں ایسے لوگ بھیجے گئےکہ بھٹو بائیں بازو کے ہاتھوں سے نکل کر جاگیرداروں اور وڈیروں میں پھنس کر رہ گئے۔ جس کی پہلی مثال اچانک 1977کا الیکشن ہے۔ اس اعلان نے کھلبلی مچادی اورسب سے پہلے پروجیکٹ پی این اے لانچ کیا گیا۔
ملک میں مارشل لا لگا اور بھٹوکو پھانسی ہوئی تو پی این اے سے بھی پیچھا چھڑانے کی باتیں ہونے لگیں پھر دو نئے پروجیکٹ سامنے آئے۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ اور سندھ میں ایم کیو ایم ۔اس وقت بنیادی مسئلہ پروجیکٹ لانے والوں کے نزدیک بھٹوکے سحر اور پی پی پی کو ختم کرنا تھا۔ پنجاب میں میاں نواز شریف صاحب پرہاتھ رکھا تو سندھ میں کوٹہ سسٹم کو بنیاد بنا کر لسانی فسادات کو آگے بڑھایاگیاجب کہ پنجاب میں یہ ٹاسک شریف برادران کو دیا گیا۔
بعد میں جب سندھ اور پنجاب میں یہ دونوں پودے تناور درخت بن گئے توان کی شاخیں کاٹنے کا کام شروع ہوا۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے کئی دھڑے بنائے گئے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کا عمل جاری رہا۔ پہلے سیاست دانوں کو کرپشن اور چمک میں لگا دیا گیا بعد میں احتساب کے نام پراچھے اور برے کرپٹ میں تقسیم کر دیا گیا۔
اس سے بھی بات نہ بنی تو 1993میں پروجیکٹ عمران کا اجرا کیا گیا جس کا خود عمران کو بھی پتا نہیں تھا۔ اس کی ابتدا 14اگست 1993کو ہوئی جب غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل جلوس نکالا گیا ۔ آپ سب کو عمران، عبدالستار ایدھی اور جنرل حمید گل والا واقعہ یاد ہو گا۔
ایدھی صاحب تو لندن چلے گئے جبکہ عمران خان دھمکی کے بعد پیچھے ہٹ گیا یوں گل پروجیکٹ ناکام ہو گیا۔ بعد میں عمران نے 1996میں اپنی جماعت تحریک انصاف بنائی جو ابتدا میں زیادہ کامیاب نہ ہوئی کیونکہ اس وقت پروجیکٹ مسلم لیگ(ق) پر کام ہو رہا تھا۔ خان صاحب سیاسی طور پر ناسمجھ تھے تبھی انہوں نے جنرل مشرف کا ساتھ دیا مگر جب 2000 میں نواز شریف ملک چھوڑ گئے۔ گجرات کے چوہدری مضبوط ہو گئےاور یوں عمران ناراض ہو گئے۔
2011 کے بعد عمران پر بھرپور توجہ دی گئی اور بہت سے لوگوں کو مختلف جماعتوں سے وہاں بھیجا گیا۔ کپتان کو خود بھی بڑی مقبولیت ملی اور 2013 میں وہ تیسری سیاسی قوت بن گئے۔ آگے کی کہانی کچھ مونس الٰہی نے سنا دی باقی چوہدری پرویز الٰہی یا پرانے پی ٹی آئی کے لوگوں سے پوچھ لیں۔
کراچی میں الطاف حسین کو پہلے مضبوط کیا گیا پھر جب وہ بہت زیادہ طاقتور ہوگئے تو نئے نئے گروپ بنا دیئے گئے۔ پروجیکٹ الطاف کے بارے میں اطلاع ہے کہ اب اسے بند کردیا گیا۔ یہی نہیں مائنس الطاف پر کام ہو رہا ہے مگر شرط یہ ہے کہ نہ رابطہ کمیٹی ہو، نہ سیکٹر یونٹ آفس۔ پیغام دیا گیا ہے کہ ایک ہوجائو اور پارٹی کے دھڑے متحد ہوکر دوسری جماعتوں کی طرح اپنا چیئرمین یا صدر اور عہدے دار نامزد کرو۔
یہ تھی چند سیاسی پروجیکٹس کی مختصر کہانی۔ اب یہ امتحان ہے سب کا کہ کیا یہ سلسلہ بند بھی ہوگا یا کل کسی اور رنگ میں آجائیںگے یہ لوگ ۔