07 دسمبر ، 2022
سندھ ہائی کورٹ میں بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس شامل کرنے کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست پر عدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) ٹیکس پر اہم سوالات اٹھا دیے۔
بدھ کو سندھ ہائی کورٹ میں بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس شامل کرنے کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالتی معاونین منیر اے ملک، خالد جاوید ، جماعت اسلامی کے وکیل پیش ہوئے، عدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کے ایم سی ٹیکس پر اہم سوالات اٹھا دیے۔
بیرسٹر خالد جاوید خان نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ کے ایم سی،ضلع کونسل کی قرارداد پر انحصار کررہی ہے جو کہ منتخب باڈی ہوتی ہے اس وقت کوئی منتخب باڈی نہیں بلکہ نگراں ایڈمنسٹریٹر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا نگراں یا عارضی ایڈمنسٹریٹر پالیسی فیصلے کرسکتا ہے ؟ بلدیاتی الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے اس طرح کے پالیسی فیصلے بڑے فیصلے ہوتے ہیں جو منتخب باڈی کو کرنے چاہییں،کے ایم سے نے بلدیاتی قوانین سے متعلق شیڈول کے پارٹ ون کاحوالہ دیا ہے جبکہ نوٹیفکیشن پارٹ ٹو سے متعلق پیش کیا گیا ہے۔
تاہم اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، نگراں یا عارضی حکومت کیا فیصلے کرسکتی ہے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دو الگ الگ درخواستیں ہیں، دوسری درخواست میں ٹیکس وصولی کو چیلنج کیا گیا ہے کے ایم سی نے تاحال دوسری پٹیشن پر جواب جمع نہیں کرایا ہے۔
عدالت نے کے ایم سی کو ٹیکس نفاذ سے متعلق درخواست پر بھی تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے بجلی کے بل میں میونسپل ٹیکس وصولی کے خلاف حکم امتناع میں بھی توسیع کردی۔
عدالت نے مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔