فیکٹ چیک: پاکستان کا تیز ترین ایتھلیٹ ہونے کا دعویٰ کرنیوالا شخص دھوکہ بازہے

عمران صابر نے اپنی کامیابی ثابت کرنے کے لیے جو سرٹیفکیٹ فراہم کیے ہیں، وہ تمام سرٹیفکیٹس جعلی ہیں۔

عمران صابر نے 10.25سیکنڈ زمیں 100 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ بنانے کے بعد پاکستان کے تیز ترین ایتھلیٹ ہونے کا دعویٰ کیا۔

عمران صابر نے بہت سارے ایوارڈزحاصل کئے اور اپنے مطلوبہ کارنامے کو فروغ دینے کے لیے مختلف ٹیلی ویژن چینلزکے بہت سارے پروگرامز میں بھی شرکت کی۔

اس کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

عمران صابرکا تعلق پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے ہے،انہوں نے کئی ٹیلی ویژن پروگراموں میں شرکت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیاکہ وہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان میں پہلے شخص ہیں، جنہیں 100 میٹر کی دوڑ 10.25سیکنڈ ز سے بھی کم وقت میں مکمل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

23 ستمبر کو اوکاڑہ کے نواحی علاقہ حویلی لکھاکے پریس کلب میں عمران صابر کے اعزاز میں منعقدہونے والی ایک تقریب میں انہوں نے 100 میٹر ریس کی کیٹیگری میں پاکستان میں نمبر ون ہونے کا دعویٰ کیا۔

اس نے یہ فخریہ انداز میں کہا کہ ”یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو آج تک کسی پاکستانی نے نہیں توڑا۔“

3 اکتوبر کو ایک مقامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران صابر نے یہ دعویٰ کیاکہ اس نے یہ ریکارڈ 2021 میں لاہور کی منہاج یونیورسٹی میں ہونے والی ریس کے دوران حاصل کیا تھا۔

عمران صابر نے ایک مارننگ شو کی میزبان کو بتایا کہ ”میں 1200 گرام وزنی جوگرز پہن کر دوڑا، میں نے 10.25سیکنڈ زسے بھی کم وقت میں فاصلہ طے کیا اور بعد میں صدر عارف علوی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر قاسم سوری کی طرف سے مجھے ایوارڈ بھی دیا گیا۔“

حقیقت

عمران صابر کےاس دعوے کی سچائی کی تصدیق کے لئے جیو فیکٹ چیک نےایتھیلیٹک فیڈریشن آف پاکستان سے رابطہ کیا، جو کہ ملک میں کھلاڑیوں کا قومی ادارہ ہے۔

ایتھلیٹک فیڈریشن آف پاکستان کے اعزازی سیکرٹری محمد ظفر نے کہا کہ  ”عمران صابر کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔“

اس کے بعد جیو فیکٹ چیک نے عمران صابر سے رابطہ کیا تاکہ وہ اپنے اس دعوے کا ثبوت جیو فیکٹ چیک کو فراہم کرے کہ وہ ملک کا تیز ترین اتھلیٹ ہے۔

عمران صابر نے جیو فیکٹ چیک کو 2016 اور 2018میں لاہور کے ہاشمی لرننگ اسکول سے جاری کیے گئے سرٹیفکیٹس فراہم کیے لیکن اس نے منہاج یونیورسٹی سےملنے والاکوئی سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کیا۔

عمران صابر نےیہ سرٹیفکیٹ جیوفیکٹ چیک کے ساتھ شئیر کیا، جو کہ جعلی ہے۔
عمران صابر نےیہ سرٹیفکیٹ جیوفیکٹ چیک کے ساتھ شئیر کیا، جو کہ جعلی ہے۔

2016کے سرٹیفکیٹ میں لکھاگیا ہے کہ ”عمران صابر کوسالانہ اسپورٹس گالا میں حصہ لینے اور1200گرام کے جوگرزپہن کر100 میٹر کی دوڑ کو صرف11.15 سیکنڈ میں پورا کرنے پر ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔“

جبکہ 2018 کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ عمران صابر نے 100 میٹر کا فاصلہ صرف 10.25سیکنڈز میں طے کیا۔

لیکن ہاشمی لرننگ سکول کے پرنسپل چوہدری محمد فیاض نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ وہ عمران صابر کےشئیرکیے گئے سرٹیفکیٹس کو نہیں پہچانتے۔

انہوں نے جیو فیکٹ چیک کو بتایاکہ”ہمارا اس قسم کا سرٹیفکیٹ کوئی پرنٹڈ بھی نہیں ہوا۔“ ان کا مزید کہنا تھاکہ ”یہ ٹوٹل ہی فیک لیا گیا ہے،مونوگرام کو صرف فالو کیا گیا ہے۔“

سرٹیفکیٹ پر دستخط عدیل نواز کے تھے جو ہاشمی لرننگ اسکول میں ٹیچر تھے۔

جیو فیکٹ چیک نےجب عدیل نوازسے رابطہ کیا توانہوں نے کہا کہ دستخط ان کے تھےلیکن انہوں نے ان دستخط شدہ سرٹیفکیٹس کونہیں پہچانا۔

انہوں نےعمران صابر کے دعوے کی تردید کرتے ہوئےکہاکہ” یہ سگنیچر یوز کیے گئےہیں، یہ وہ سرٹیفکیٹ نہیں ہیں۔“

جیو فیکٹ چیک نے عمران صابر سے اس دعوے کی وضاحت کے لیےدوبارہ رابطہ کیا۔ اس بار عمران صابر نے اپنی کہانی میں ایک بار پھر ردوبدل کیا اور کہا کہ چونکہ ان کی دو انگلیاں ٹیڑھی تھیں، اس لیےانہیں 100 میٹر کی دوڑ میں ایک معذور شخص کے طور پر منتخب کیا گیاتھا۔

عمران صابر کو اکثر تصویروں میں پاکستان کی نیشنل پیرا اولمپک کمیٹی کا کوٹ بھی پہنا ہوا دیکھا جاسکتا ہے،یہ کمیٹی پاکستان میں معذوروں کے لئے کھیلوں کو فروغ دیتی ہے۔

جیو فیکٹ چیک نے نیشنل پیرا اولمپک کمیٹی (این پی سی)سے بھی رابطہ کیا۔

افتخار علی ڈائریکٹر اسپورٹس پنجاب،پیرا اولمپک ایسوسی ایشن نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ عمران صابر ان کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

افتخار علی کا کہنا تھا کہ ”عمران صابر کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور وہ پاکستان پیرا اولمپک ایسوسی ایشن کا حصہ بھی نہیں ہیں۔“

سب سے آخر میں جیو فیکٹ چیک نے منہاج یونیورسٹی سے رابطہ کیا۔ یونیورسٹی میں منہاج یوتھ لیگ کے مرکزی صدر مظہر محمود علوی نے کہا کہ ان کی جانب سے ایسی کسی بھی دوڑ کا انعقاد نہیں کیا گیا۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔