بلاگ
Time 21 دسمبر ، 2022

سیاسی سرکس، ابھی جاری ہے

بات زیادہ پرانی نہیں، پچھلے سال کی ہے جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور چوہدری برادران کے درمیان اختلافات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ مسلم لیگ(ق) نے مرکز اور پنجاب میں حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا جس کا پہلا واضح اشارہ وہ ’ڈنر‘ تھا جو اسی رات دیاگیا جس رات وزیر اعظم عمران خان نے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں دیا۔ یہ واضح اعلان تھا جس سے پہلی بار کپتان کو لگا کہ صورتحال بگڑ رہی ہے ۔ اب یہ وہ خود ہی بتا ئیں تو بہتر ہے کہ کس نے مداخلت کرکے ان کو روکا اور یوں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومت بچ گئی اور میں ارشاد بھٹی سے شرط جیت گیا۔

کپتان کے اس وقت تیز رفتار بائونسر کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جو خود بھی جوانی میں کرکٹ کھیلتے تھے اور وکٹ کیپر بھی رہے، مسلسل ’ڈک‘ کررہے ہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ دونوں میں نہ کپتان کے پاس گدی ہے نہ باجوہ صاحب کے پاس ’چھڑی‘۔ انہیں دو سال بولنے پر بھی پابندی کا سامنا ہے مگر شاید جو انٹرویو پرویز الٰہی نے عمران کے باجوہ صاحب پر مسلسل حملوں کے بعد دیا،بول وہ ضرور رہے تھے مگر لگتا ہے جواب کسی اور کا تھا۔

بات ہورہی تھی پچھلے سال کی جب چوہدری برادران اور عمران خان ایک دوسرے کی شکل دیکھنا برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس ڈنر کے بعد عمران کو خاصا غصہ تھا اور پھر اچانک چوہدریوں کے خلاف نیب ریفرنس کے نوٹس جاری ہوگئے، اب یہ کپتان بتاسکتے ہیں کہ وہ ازخود جاری ہوئے، جنرل باجوہ نے جاری کروائے یا شہزاد اکبرنے۔پھر یوں ہوا کہ نوٹس نہ صرف رک گئے بلکہ فائل ہی بند ہوگئی اور چوہدریوں اورعمران کی ’دوستی‘ ہوگئی، وہ خان جو ان برسوں میں چوہدریوں کے گھر جانا پسند نہیں کرتے تھے، وہ چوہدری شجاعت کی خیریت معلوم کرنے پہنچ گئے، مونس الٰہی جس کی شکل تک وزیر اعظم کو پسند نہیں تھی، انہیں وزیر بھی بنالیا۔ اب پتا نہیں یہ کونسا NRO تھا، کس نے دیا تھا، کس نے دلوایا تھا مگر پنجاب اور بزدار بچ گئے۔ اچھا ہوتا اگر کپتان شریفوں اور زرداری کو دو این آرو کا طعنہ دیتے ہوئے جو ان کے بقول ایک جنرل مشرف نے اور ایک جنرل باجوہ نے دیا، اس تیسرے کا بھی ذکر کرتے جوان کے دور میں ان کی حکومت کو بچانے کیلئے دیا گیا۔

بظاہر ملک میں خاص طور پر لاہور میں ایک ’’ سیاسی سرکس‘‘ لگا ہوا ہے، زمان پارک سے لے کر وزیر اعلیٰ ہائوس تک اور گورنر ہائوس سے لے کر ہائوس آف شریف اور زرداری تک ہر طرح کی خبریں گردش میں ہیں، آج بھی دیکھیں پنجاب اسمبلی میں سرکس کا کونسا تماشہ پیش کیا جاتا ہے۔ پرویز الٰہی کو مزید وقت دیا جارہا ہے یا وہ خود کچھ لے رہے ہیں۔

عمران خان آج تک جنرل باجوہ کو نہ صرف اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں بلکہ نیب کو کنٹرول کرنے اور چیئرمین الیکشن کمیشن لگانے کی ذمہ داری بھی انہی کے سر ڈال رہے ہیں۔ کپتان’امربالمعروف‘ کا اکثر ذکر کرتے پائے جاتے ہیں کہ سب کو ’حق‘ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے مگر یہ تو بتادیں کہ’حق‘ ہے کیا؟کل جب میاں نواز شریف جنرل باجوہ کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے تو عمران ان کا دفاع کرتے پائے گئے۔باجوہ صاحب چھ سال آرمی چیف ایسے ہی نہیں رہے، اس میں شریفوںاور کپتان کا برابر کا حصہ ہے۔ سب سے ز یادہ نیوٹرل کا خطاب ان کو کپتان نے ہی دیا تھا۔

کپتان کی توپوں کا رخ ضرور سابق آرمی چیف کی طرف ہے مگر چیئرمین نیب جاوید اقبال باجوہ صاحب کے اشارے پر چلتے تھے تو آخر ان کے خلاف وہ ویڈیو کس نے بنائی، کس نے چلائی اور پھر کس چینل پر چلی؟ مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ اس دوران جب میں نے سندھ نیب کے ایک سینئر افسر سے پوچھا تواس نے اعتراف کیا کہ اس ویڈیو کے چلنے کے بعد شریفوں، زرداری اور چوہدریوں کے مقدمات میں تیزی آگئی تھی۔ یہ پردہ بھی چاک ہونا ابھی باقی ہے۔

تیسری بات تین اتحادیوں کی ہے یعنی ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ(ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی، جنوبی پنجاب محاذ کا بھی اضافہ کرلیں۔ یہ سب’ امر بالمعروف‘ پر تھے 2018سے2022تک ۔اب یہ کپتان بتائیں کہ یہ سب ان کے حوالے کس نے کئے اور اگرحوالے نہ کیے جاتےیا خان صاحب ان کو قبول نہ کرتے توشاید2018کے الیکشن کے نتائج بھی مختلف ہوتے۔ مسلم لیگ (ن) کی بلوچستان کی حکومت بھی قائم رہتی۔ اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ بقول ابن انشا ؎

حق اچھا پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا

تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو، خاموش رہو

چوہدری برادران نے کبھی اپنی وابستگی اداروں سے نہیں توڑی۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ(ق) کاقیام اداروں کی ایک اور پیداوار مسلم لیگ (ن) اور خاص طور پرمیاں نواز شریف کی پارٹی پر گرفت کی وجہ سے ہوئی اور انہوں نے کبھی چوہدریوں کو دل سے قبول نہیں کیا۔ 1997میں الیکشن سے قبل میاں صاحب نے یہ وعدہ کیا کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں ان کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہونگے مگردوتہائی اکثریت ملنے پر وہ وعدے سے پھر گئے۔

 بہرحال چوہدری ساتھ رہے اور شجاعت وزیر داخلہ اور پرویز الٰہی اسپیکر بنے۔ 1999میں جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضہ کے بعد میاں صاحب2000میں ڈیل کرکے سعودی عرب گئے تو پارٹی کا قائم مقام صدر جاوید ہاشمی کو بنادیا، یوں چوہدریوں کیلئے میدان چھوڑدیا اور وہ مشرف کے ہوگئے۔ شجاعت کچھ عرصہ وزیر اعظم رہے پھر شوکت عزیز آگئے، بہرحال پہلی بار پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے۔ 2008میں سابق صدر آصف علی زرداری نے انہیں ڈپٹی وزیر اعظم تک بنا دیا جبکہ مونس الٰہی کو ایک مشکل کیس سے باہر نکالا جس کا اعتراف آج بھی پرویز الٰہی کرتے ہیں۔

زرداری صاحب اور پرویز الٰہی کے درمیان پچھلے سال ایک ’گیم پلان‘ تیار ہوا تھا مگر یہ جنرل باجوہ ہی تھے جنہوں نے نہ صرف بزدار کو بچایا، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو بچایا بلکہ خود عمران کو بچایا۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ وہ جب یہ سب کررہے تھے تو آئین کی کس شق اور قانون کے تحت کررہے تھے، اگر عمران کا یہ’سچ‘ ہے کہ ان سارے اتحادیوں کو ان سے چھین کر PDM کی گود میں باجوہ صاحب نے ڈالا تو پھر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ 2018میں ان کو کپتان کی گود میں بھی انہوں نے ہی ڈالا تھا،’سچ‘ پورا بولنا چاہئے ۔آپ لوگ جب تک ’سرکس‘ دیکھیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔