فیکٹ چیک: لاک اپ میں قید افغان مہاجرین کے بچوں کی تصویر کراچی کی ہے

صوبائی وزیر اطلاعات کے دعوے کے برعکس سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویرصوبائی دارالحکومت کے سٹی کورٹ کے بخشی خانہ کی ہے

متعدد سوشل میڈیا صارفین اور سندھ کے وزیر اطلاعات نے یہ دعویٰ کیا ہےکہ قیدی افغان بچوں کی وائرل ہونے والی تصویر صوبہ سندھ کی کسی جیل کی نہیں ہے۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ چار بچے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے باہر جھانک رہے ہیں۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ یہ تصویر کراچی کے ایک لاک اپ کی ہے، جہاں افغان مہاجر بچوں کو ان کی ماؤں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔

تاہم سوشل میڈیا پر اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے 30 دسمبر کو ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں اس بات کی تردید کی کہ یہ تصویر کراچی کی جیل کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہا کہ” یہ تصویر سندھ کی کسی جیل کی نہیں ہے“ وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ یہ بیان دینے سے قبل انہوں نے مقامی جیل حکام اور اہلکاروں سے اس کے متعلق معلوم کیا ہے۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے بھی اپنی ٹوئٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کراچی سے منسلک ایک ”جعلی تصویر“ کو پھیلا رہی ہے۔

حقیقت

وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے دعویٰ کے برعکس یہ تصویر کراچی کے سٹی کورٹ کے بخشی خانہ کی ہے۔

کراچی میں ایک وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن ثمر عباس نے یہ تصویر 28 دسمبر کو صبح 11 بجے لی تھی۔

انہوں نے جیو فیکٹ چیک کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ”میں نے خود یہ پکچر اپنے موبائل سے لی ہے“ انہوں نے مزید بتایا کہ”ان (افغان مہاجرین) کو کیونکہ کیس جب لگے ہوئے ہوتے ہیں تو جیل سے لاک اپ میں لے کے آتے ہیں، وہاں پہ ان کو رکھا جاتا ہے، پھر وہاں سے ان کو کورٹ لے کے جایا جاتا ہے“

ثمر عباس کا مزید کہنا تھا کہ اس روز انہوں نے جن افغان مہاجر بچوں سے ملاقات کی تھی، ان کی عمریں نو سال سے کم تھیں۔

اپنے تصدیقی بیان کے ثبوت کے طور پر ثمر عباس نے جیو فیکٹ چیک کے ساتھ اپنے موبائل کیمرہ سے لی گئی ان تصویروں کی تفصیلات اور اپنے موبائل فون کی فوٹو گیلری کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی۔

اس کے علاوہ، جیو فیکٹ چیک گوگل امیجز، TinEye یا Yandex پر اس تصویر کا سراغ نہیں لگا سکا۔اس سے مزید یہ ثابت ہوتا ہے کہ ثمر عباس نے جو تصویر لی ہے وہ اصلی ہے، اور 28 دسمبر سے پہلے انٹرنیٹ پر موجود نہیں تھی۔

ہمیں GeoFactCheck@ پر فالو کریں۔اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔