06 جنوری ، 2023
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے کہ چائے کے وقفے کے بعد پلان جیت کی جانب جانے کا تھا لیکن اوپر نیچے وکٹیں گریں اور نئی گیند لی گئی تو پلان تبدیل کیا اور ڈرا کی جانب گئے۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹیسٹ بھی ڈرا ہوگیا، ٹیسٹ کے آخری دن نیوزی لینڈکے 319 رنز کے تعاقب میں پاکستان نے دوسری اننگز میں 9 وکٹ پر 304 رنزبنائے، پاکستان کو جیت کیلئے 15 رنز اور نیوزی لینڈ کو ایک وکٹ درکار تھی تاہم آج کی اننگز کے 3 اوورز قبل ہی امپائر نے کم روشنی کے باعث میچ ختم کردیا۔
4 سال بعد ٹیم میں واپس آئے سرفراز احمد نے شاندار سنچری بنائی اور 118 رنز بناکر پاکستان کی جانب سے نمایاں رہے۔
میچ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے کہا کہ چار وکٹیں گریں تو میچ بچانا مشکل تھا لیکن سعود شکیل اور سرفراز احمد نے بھروسے والی اننگز کھیلی اور میچ کو جیت کی جانب لے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سعود اور سمان علی آغا آؤٹ ہوئے تو پلان تبدیل کرنا پڑا، ایسا نہیں ہے کہ جیت کیلئے ہم نے چانس نہیں لیا، نسیم اور ابرار نے نئی بال کے ساتھ مشکل وکٹ میں اچھی بیٹنگ کی چار اوور کھڑے رہنا دلیری کا کام تھا جس کا انہیں کریڈیٹ دینا چاہیے۔
ایک سوال پر بابر اعظم نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کس کی کپتانی کہاں جا رہی ہے، وہ اس سے لاعلم ہیں، میرا کام ہے پرفارم کرنا اور ٹیم سے پرفارمنس لینا۔
بابر اعظم نے تسلیم کیا کہ ٹیسٹ سیزن ان کا ایسا نہیں گیا جس کی انہیں توقع تھی،انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم کرکٹ کھیلتے آرہے تھے امید تھی کہ ٹیسٹ سیزن اچھا ہوگا لیکن بدقسمتی سے ٹیسٹ سیزن شروع ہوا تو انجریز سامنے آگئیں جس کی وجہ سے کمبنیشن خراب ہوا اور نتائج ہمارے حق میں نہیں جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہر گراؤنڈ کی اپنی کنڈیشن ہوتی ہیں، پچز ہمیں ملیں ہم نے اس کے مطابق پلان ترتیب بھی دیا، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پچز کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی، ہم ہر پچ اور ہر کنڈیشن میں کھیلنے کیلئے تیار اور مطمئن بھی ہیں۔
بابر اعظم کا کہنا تھا ہے تنقید ہوتی رہتی ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ ٹیم کو اور خود کو تنقید سے دور رکھوں، کوشش ہوتی ہے مثبت رہیں غلطیاں ہوتی ہیں، اپ اینڈ ڈاؤن بھی ہوتا رہتا ہے لیکن ہمیں غلطیوں سے سیکھنا چاہیے ۔
اس کے علاوہ ریڈ بال اور وائٹ بال کی الگ الگ ٹیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کیلئے پلان بنانا ہوگا، آہستہ آہستہ اقدام اٹھانا پڑتے ہیں، کرکٹ اتنی ہو رہی ہے سوچنا پڑے گا کہ الگ الگ ٹیم ہوں اور ہر فارمیٹ کو اچھے انداز میں کھیلنا ہے تو ایسے کچھ اقدام اٹھانے پڑیں گے۔