10 جنوری ، 2023
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ درخواست میں ایسا کوئی قابل ذکر نکتہ نہیں جن کا جواب دیا جاسکے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ قانون اس وقت ہی کالعدم ہوتا ہے جب کوئی اور راستہ نہ بچاہو، عدلیہ، پارلیمان اور ایگزیکٹو کو اپنی اپنی حدود میں رہنا چاہیے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے عدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینےکا اختیار دیا، عدالتی فیصلے میں بھی قوانین کالعدم قرار دینے کا اختیار مشروط ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا کہ قانون کو منظور کرنےکے لیے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے وقت موجود ممبران کی عددی تعداد ہونی چاہے، نیب قانون میں ترامیم منظور کرتے وقت کتنے ممبران حاضر تھے؟
وکیل مخدوم علی خان نےکہا کہ ممبران کی درست تعداد بتا دوں گا، آج تک کوئی قانون اس بنیاد پرکالعدم نہیں ہوا کہ اسے اکثریتی ممبران نے منظور نہیں کیا، امریکی سپریم کورٹ کے جج نے کہا تھا کہ مقننہ کے پاس احمقانہ قانون سازی کا ہر حق موجود ہے، اگر عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ساتھ جہنم بھی جائیں تو ان کی مدد کریں گے، کسی بری یا احمقانہ قانون سازی پر بھی عدالت کا کوئی دائرہ اختیار نہیں بنتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کے حلف میں ہےکہ وہ تمام فیصلے ملکی سلامتی، ترقی و بہتری کے لیے کریں گے، کیا اس کےخلاف قانون سازی ممبران پارلیمنٹ کے حلف کی خلاف ورزی تصور ہوگی؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی عدالت ممبران پارلیمنٹ کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججز اور ممبران کے حلف میں بس یہی فرق ہےکہ ججز ملکی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے مطابق فیصلوں کا حلف نہیں لیتے۔
کیس کی مزید سماعت 11 جنوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔